حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا ابو مالك ، عن ربعي بن حراش ، عن حذيفة انه قدم من عند عمر، قال: لما جلسنا إليه امس، سال اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم: ايكم سمع قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتن؟ فقالوا: نحن سمعناه، قال: لعلكم تعنون فتنة الرجل في اهله وماله؟ قالوا: اجل، قال: لست عن تلك اسال، تلك يكفرها الصلاة والصيام والصدقة، ولكن ايكم سمع قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتن التي تموج موج البحر؟ قال: فامسك القوم، وظننت انه إياي يريد، قلت: انا، قال لي: انت لله ابوك! قال: قلت: " تعرض الفتن على القلوب عرض الحصير، فاي قلب انكرها نكتت فيه نكتة بيضاء، واي قلب اشربها نكتت فيه نكتة سوداء، حتى يصير القلب على قلبين: ابيض مثل الصفا لا يضره فتنة ما دامت السموات والارض، والآخر اسود مربد كالكوز مخجيا وامال كفه لا يعرف معروفا، ولا ينكر منكرا، إلا ما اشرب من هواه" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا أَبو مَالِكٍ ، عَنْ رِبعِيِّ بنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّهُ قَدِمَ مِنْ عِنْدِ عُمَرَ، قَالَ: لَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ أَمْسِ، سَأَلَ أَصْحَاب مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّكُمْ سَمِعَ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتَنِ؟ فَقَالُوا: نَحْنُ سَمِعْنَاهُ، قَالَ: لَعَلَّكُمْ تَعْنُونَ فِتْنَةَ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ؟ قَالُوا: أَجَلْ، قَالَ: لَسْتُ عَنْ تِلْكَ أَسْأَلُ، تِلْكَ يُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصِّيَامُ وَالصَّدَقَةُ، وَلَكِنْ أَيُّكُمْ سَمِعَ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتَنِ الَّتِي تَمُوجُ مَوْجَ الْبحْرِ؟ قَالَ: فَأَمْسَكَ الْقَوْمُ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُ إِيَّايَ يُرِيدُ، قُلْتُ: أَنَا، قَالَ لِي: أَنْتَ لِلَّهِ أَبوكَ! قَالَ: قُلْتُ: " تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوب عَرْضَ الْحَصِيرِ، فَأَيُّ قَلْب أَنْكَرَهَا نُكِتَتْ فِيهِ نُكْتَةٌ بيْضَاءُ، وَأَيُّ قَلْب أُشْرِبهَا نُكِتَتْ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ، حَتَّى يَصِيرَ الْقَلْب عَلَى قَلْبيْنِ: أَبيَضَ مِثْلِ الصَّفَا لَا يَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتْ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ، وَالْآخَرِ أَسْوَدَ مُرْبدٍّ كَالْكُوزِ مُخْجِيًا وَأَمَالَ كَفَّهُ لَا يَعْرِفُ مَعْرُوفًا، وَلَا يُنْكِرُ مُنْكَرًا، إِلَّا مَا أُشْرِب مِنْ هَوَاهُ" .
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس سے آئے ان کا کہنا ہے کل گذشتہ جب ہم ان کے پاس بیٹھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں میں سے کس نے فتنوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہنے لگے کہ ہم سب ہی نے سنا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا شاید تم وہ فتنہ سمجھ رہے ہو جو آدمی کے اہل خانہ اور مال سے متعلق ہوتا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھ رہا اس کا کفارہ تو نماز روزہ اور صدقہ بن جاتے ہیں ان فتنوں کے بارے تم میں سے کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد سنا ہے جو سمندر کی موجوں کی طرح پھیل جائیں گے؟
اس پر لوگ خاموش ہوگئے اور میں سمجھ گیا کہ اس کا جواب وہ مجھ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں چناچہ میں نے عرض کیا کہ میں نے وہ ارشاد سنا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا یقینا تم نے ہی سنا ہوگا میں نے عرض کیا کہ دلوں کے سامنے فتنوں کو اس طرح پیش کیا جائے گا جیسے چٹائی کو پیش کیا جائے جو دل ان سے نامانوس ہوگا اس پر ایک سفید نقطہ پڑجائے گا اور جو دل اس کی طرف مائل ہوجائے گا اس پر ایک کالا دھبہ پڑجائے گا حتیٰ کہ دلوں کی دو صورتیں ہوجائیں گی ایک تو ایسا سفید جیسے چاندی اسے کوئی فتنہ " جب تک آسمان و زمین رہیں گے " نقصان نہ پہنچا سکے گا اور دوسرا ایسا کالا سیاہ جیسے کوئی شخص کٹورے کو اوندھا دے اور ہتھیلی پھیلا دے ایسا شخص کسی نیکی کو نیکی اور کسی گناہ کو گناہ نہیں سمجھے گا سوائے اسی چیز کے جس کی طرف اس کی خواہش کا میلان ہو۔