حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا داود بن قيس الصنعاني ، حدثني عبد الله بن وهب ، عن ابيه ، حدثني فنج ، قال: كنت اعمل في الدينباذ، واعالج فيه، فقدم يعلى بن امية اميرا على اليمن، وجاء معه رجال من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فجاءني رجل ممن قدم معه، وانا في الزرع اصرف الماء في الزرع، ومعه في كمه جوز، فجلس على ساقية من الماء وهو يكسر من ذلك الجوز وياكله، ثم اشار إلى فنج، فقال: يا فارسي، هلم، فدنوت منه، فقال الرجل لفنج: اتضمن لي واغرس من هذا الجوز على هذا الماء؟ فقال له فنج: ما ينفعني ذلك؟ قال: فقال الرجل : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول باذني هاتين: " من نصب شجرة، فصبر على حفظها والقيام عليها حتى تثمر كان له في كل شيء يصاب من ثمرها صدقة عند الله" ، فقال له فنج: آنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، فقال فنج: فانا اضمنها، قال: فمنها جوز الدينباذ.حَدَّثَنَا عَبدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبرَنَا دَاوُدُ بنُ قَيْسٍ الصَّنْعَانِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ وَهْب ، عَنْ أَبيهِ ، حَدَّثَنِي فَنَّجُ ، قَالَ: كُنْتُ أَعْمَلُ فِي الدَّيْنَباذِ، وَأُعَالِجُ فِيهِ، فَقَدِمَ يَعْلَى بنُ أُمَيَّةَ أَمِيرًا عَلَى الْيَمَنِ، وَجَاءَ مَعَهُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَاب النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَنِي رَجُلٌ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَهُ، وَأَنَا فِي الزَّرْعِ أَصْرِفُ الْمَاءَ فِي الزَّرْعِ، وَمَعَهُ فِي كُمِّهِ جَوْزٌ، فَجَلَسَ عَلَى سَاقِيَةٍ مِنَ الْمَاءِ وَهُوَ يَكْسِرُ مِنْ ذَلِكَ الْجَوْزِ وَيَأْكُلُهُ، ثُمَّ أَشَارَ إِلَى فَنَّجَ، فَقَالَ: يَا فَارِسِيُّ، هَلُمَّ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ لِفَنَّجَ: أَتَضْمَنُ لِي وَأَغْرِسُ مِنْ هَذَا الْجَوْزِ عَلَى هَذَا الْمَاءِ؟ فَقَالَ لَهُ فَنَّجُ: مَا يَنْفَعُنِي ذَلِكَ؟ قَالَ: فَقَالَ الرَّجُلُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ: " مَنْ نَصَب شَجَرَةً، فَصَبرَ عَلَى حِفْظِهَا وَالْقِيَامِ عَلَيْهَا حَتَّى تُثْمِرَ كَانَ لَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ يُصَاب مِنْ ثَمَرِهَا صَدَقَةٌ عِنْدَ اللَّهِ" ، فَقَالَ لَهُ فَنَّجُ: آَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ فَنَّجُ: فَأَنَا أَضْمَنُهَا، قال: فَمِنْهَا جَوْزُ الدَّيْنَباذِ.
فنج کہتے ہیں کہ " دینباذ " (علاقے کا نام) میں کام کاج کرتا تھا، اس دوران یعلی بن امیہ یمن کے گورنر بن کر آگئے ان کے ساتھ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہ بھی آئے تھے ان میں سے ایک آدمی میرے پاس آیا میں اس وقت اپنے کھیت میں پانی لگا رہا تھا اس آدمی کی جیب میں اخروٹ تھے وہ پانی کی نالی پر بیٹھ گیا اور اخروٹ توڑ توڑ کر کھانے لگا پھر اس شخص نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا کہ اے فارسی! ادھر آؤ میں قریب چلا گیا تو وہ کہنے لگا کہ کیا تم مجھے اس بات کی ضمانت دے سکتے ہو کہ اس پانی کے قریب اخروٹ کے درخت لگائے جاسکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ مجھے اس ضمانت سے کیا فائدہ ہوگا؟ اس شخص نے کہا کہ میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کوئی درخت لگائے اور اس کی نگہداشت اور ضرورت کا خیال رکھتا رہے تاآنکہ اس پر پھل آجائے تو جس چیز کو بھی اس کا پھل ملے گا وہ اللہ کے نزدیک اس کے لئے صدقہ بن جائے گا فنج نے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا جی ہاں! اس پر فنج نے انہیں ضمانت دے دی اور اب تک وہاں کے آخروٹ مشہور ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال فتج، وهذا حديث منكر