حدثنا معتمر ، قال: سمعت ابن ابي الحكم الغفاري ، يقول: حدثتني جدتي ، عن عم ابي: رافع بن عمرو الغفاري ، قال: كنت وانا غلام ارمي نخلا للانصار، فاتي النبي صلى الله عليه وسلم , فقيل: إن هاهنا غلاما يرمي نخلنا , فاتي بي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" يا غلام، لم ترمي النخل؟" قال: قلت: آكل , قال:" فلا ترم النخل، وكل ما يسقط في اسافلها" ثم مسح راسي , وقال:" اللهم اشبع بطنه" .حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي الْحَكَمِ الْغِفَارِيَّ ، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي جَدَّتِي ، عَنْ عَمِّ أَبِي: رَافِعِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ وَأَنَا غُلَامٌ أَرْمِي نَخْلًا لِلْأَنْصَارِ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقِيلَ: إِنَّ هَاهُنَا غُلَامًا يَرْمِي نَخْلَنَا , فَأُتِيَ بِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا غُلَامُ، لِمَ تَرْمِي النَّخْلَ؟" قَالَ: قُلْتُ: آكُلُ , قَالَ:" فَلَا تَرْمِ النَّخْلَ، وَكُلْ مَا يَسْقُطُ فِي أَسَافِلِهَا" ثُمَّ مَسَحَ رَأْسِي , وَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَشْبِعْ بَطْنَهُ" .
حضرت رافع سے مروی ہے کہ میں اور ایک لڑکا انصار کے باغ میں درختوں پر پتھر مارتے تھے باغ کا مالک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یہاں ایک لڑکا ہے جو ہمارے درختوں پر پتھر مارتا ہے پھر مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے لڑکے تم درختوں پر پتھر کیوں مارتے ہو؟ میں نے عرض کیا پھل کھانے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں پر پتھر نہ مارو جو نیچے پھل گرجائے انہیں کھالیا کرو پھر میرے سر پر ہاتھ پھیر کر فرمایا اے اللہ اس کا پیٹ بھر دے۔
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ابن أبى الحكم وجديه