(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، قال: اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، قال: اخبرني رجل من الانصار من اهل الفقه، انه سمع عثمان بن عفان رحمه الله يحدث، ان رجالا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حين توفي النبي صلى الله عليه وسلم حزنوا عليه، حتى كاد بعضهم يوسوس، قال عثمان: وكنت منهم، فبينا انا جالس في ظل اطم من الآطام مر علي عمر، فسلم علي، فلم اشعر انه مر ولا سلم، فانطلق عمر حتى دخل على ابي بكر، فقال له: ما يعجبك اني مررت على عثمان، فسلمت عليه، فلم يرد علي السلام؟ واقبل هو وابو بكر في ولاية ابي بكر، حتى سلما علي جميعا، ثم قال ابو بكر: جاءني اخوك عمر، فذكر انه مر عليك، فسلم، فلم ترد عليه السلام، فما الذي حملك على ذلك؟ قال: قلت: ما فعلت، فقال عمر: بلى، والله لقد فعلت، ولكنها عبيتكم يا بني امية، قال: قلت: والله ما شعرت انك مررت بي، ولا سلمت، قال ابو بكر: صدق عثمان، وقد شغلك عن ذلك امر؟ فقلت: اجل، قال: ما هو؟ فقال عثمان: توفى الله عز وجل نبيه صلى الله عليه وسلم قبل ان نساله عن نجاة هذا الامر، قال ابو بكر: قد سالته عن ذلك، قال: فقمت إليه، فقلت له: بابي انت وامي، انت احق بها، قال ابو بكر : قلت: يا رسول الله، ما نجاة هذا الامر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قبل مني الكلمة التي عرضت على عمي، فردها علي، فهي له نجاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ أَهْلِ الْفِقْهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَحِمَهُ اللَّهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنُوا عَلَيْهِ، حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يُوَسْوِسُ، قَالَ عُثْمَانُ: وَكُنْتُ مِنْهُمْ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي ظِلِّ أُطُمٍ مِنَ الْآطَامِ مَرَّ عَلَيَّ عُمَرُ، فَسَلَّمَ عَلَيَّ، فَلَمْ أَشْعُرْ أَنَّهُ مَرَّ وَلَا سَلَّمَ، فَانْطَلَقَ عُمَرُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ لَهُ: مَا يُعْجِبُكَ أَنِّي مَرَرْتُ عَلَى عُثْمَانَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ؟ وَأَقْبَلَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ فِي وِلَايَةِ أَبِي بَكْرٍ، حَتَّى سَلَّمَا عَلَيَّ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: جَاءَنِي أَخُوكَ عُمَرُ، فَذَكَرَ أَنَّهُ مَرَّ عَلَيْكَ، فَسَلَّمَ، فَلَمْ تَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ، فَمَا الَّذِي حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا فَعَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلَى، وَاللَّهِ لَقَدْ فَعَلْتَ، وَلَكِنَّهَا عُبِّيَّتُكُمْ يَا بَنِي أُمَيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ أَنَّكَ مَرَرْتَ بِي، وَلَا سَلَّمْتَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقَ عُثْمَانُ، وَقَدْ شَغَلَكَ عَنْ ذَلِكَ أَمْرٌ؟ فَقُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: مَا هُوَ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ: تَوَفَّى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ عَنْ نَجَاةِ هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَنْتَ أَحَقُّ بِهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا نَجَاةُ هَذَا الْأَمْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَبِلَ مِنِّي الْكَلِمَةَ الَّتِي عَرَضْتُ عَلَى عَمِّي، فَرَدَّهَا عَلَيَّ، فَهِيَ لَهُ نَجَاةٌ".
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان فرمائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غمگین رہنے لگے بلکہ بعض حضرات کو طرح طرح کے وساوس نے گھیرنا شروع کر دیا تھا، میری بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی، اسی تناظر میں ایک دن میں کسی ٹیلے کے سائے میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، انہوں نے مجھے سلام کیا، لیکن مجھے پتہ ہی نہ چل سکا کہ وہ یہاں سے گزر کر گئے ہیں یا انہوں نے مجھے سلام کیا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہاں سے ہو کر سیدھے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا کہ آپ کو ایک حیرانگی کی بات بتاؤں؟ میں ابھی عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا تھا، میں نے انہیں سلام کیا لیکن انہوں نے میرے سلام کا جواب ہی نہیں دیا؟ یہ خلافت صدیقی کا واقعہ ہے، اس مناسبت سے تھوڑی دیر بعد سامنے سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آتے ہوئے دکھائی دئیے، ان دونوں نے آتے ہی مجھے سلام کیا۔ اس کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میرے پاس ابھی تمہارے بھائی عمر آئے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ ان کا آپ کے پاس سے گزر ہوا، انہوں نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا کہ میں نے تو ایسا کچھ نہیں کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کیوں نہیں! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ نے ایسا کیا ہے، اصل بات یہ ہے کہ اے بنو امیہ! آپ لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھتے ہیں، میں نے کہا: کہ اللہ کی قسم! مجھے آپ کے گزرنے کا احساس ہوا اور نہ ہی مجھے آپ کے سلام کرنے کی خبر ہو سکی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عثمان ٹھیک کہہ رہے ہیں، اچھا یہ بتائیے کہ آپ کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ کن خیالات میں مستغرق تھے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اپنے پاس بلا لیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی نہ پوچھ سکا کہ اس حادثہ سے صحیح سالم نجات پانے کا کیا راستہ ہو گا؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے متعلق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کر چکا ہوں، یہ سن کر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ہی اس سوال کے زیادہ حقدار تھے، اس لئے اب مجھے بھی اس کا جواب بتا دیجئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا، یا رسول اللہ! اس حادثہ جانکاہ سے نجات کا راستہ کیا ہو گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص میری طرف سے وہ کلمہ توحید قبول کر لے جو میں نے اپنے چچا خواجہ ابوطالب پر پیش کیا تھا اور انہوں نے وہ کلمہ کہنے سے انکار کر دیا تھا، وہ کلمہ ہی ہر شخص کے لئے نجات کا راستہ اور سبب ہے۔“
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح بشواهده، رجاله ثقات رجال الشيخين غير الرجال الذى روي عنه الزهري