حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا الزبير ابو عبد السلام ، عن ايوب بن عبد الله بن مكرز ، ولم يسمعه منه، قال: حدثني جلساؤه وقد رايته، عن وابصة الاسدي ، قال: عفان حدثني غير مرة ولم يقل: حدثني جلساؤه، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا اريد ان لا ادع شيئا من البر والإثم إلا سالته عنه، وحوله عصابة من المسلمين يستفتونه، فجعلت اتخطاهم، فقالوا: إليك يا وابصة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. قلت: دعوني فادنو منه، فإنه احب الناس إلي ان ادنو منه. قال:" دعوا وابصة، ادن يا وابصة". مرتين او ثلاثا. قال: فدنوت منه حتى قعدت بين يديه، فقال:" يا وابصة اخبرك ام تسالني؟" قلت: لا بل اخبرني. فقال:" جئت تسالني عن البر والإثم". فقال: نعم. فجمع انامله فجعل ينكت بهن في صدري، ويقول:" يا وابصة، استفت قلبك واستفت نفسك". ثلاث مرات،" البر: ما اطمانت إليه النفس، والإثم: ما حاك في النفس وتردد في الصدر، وإن افتاك الناس وافتوك" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا الزُّبَيْرُ أَبُو عَبْدِ السَّلَامِ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مِكْرَزٍ ، وَلَمْ يَسْمَعْهُ مِنْهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُلَسَاؤُهُ وَقَدْ رَأَيْتُهُ، عَنْ وَابِصَةَ الْأَسَدِيِّ ، قَالَ: عَفَّانُ حَدَّثَنِي غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَمْ يَقُلْ: حَدَّثَنِي جُلَسَاؤُهُ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ لَا أَدَعَ شَيْئًا مِنَ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ إِلَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ، وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَسْتَفْتُونَهُ، فَجَعَلْتُ أَتَخَطَّاهُمْ، فَقَالُوا: إِلَيْكَ يَا وَابِصَةُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قُلْتُ: دَعُونِي فَأَدْنُوَ مِنْهُ، فَإِنَّهُ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ. قَالَ:" دَعُوا وَابِصَةَ، ادْنُ يَا وَابِصَةُ". مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا. قَالَ: فَدَنَوْتُ مِنْهُ حَتَّى قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" يَا وَابِصَةُ أُخْبِرُكَ أَمْ تَسْأَلُنِي؟" قُلْتُ: لَا بَلْ أَخْبِرْنِي. فَقَالَ:" جِئْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ". فَقَالَ: نَعَمْ. فَجَمَعَ أَنَامِلَهُ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِنَّ فِي صَدْرِي، وَيَقُولُ:" يَا وَابِصَةُ، اسْتَفْتِ قَلْبَكَ وَاسْتَفْتِ نَفْسَكَ". ثَلَاثَ مَرَّاتٍ،" الْبِرُّ: مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ، وَالْإِثْمُ: مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ، وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ" .
حضرت وابصہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میرا ارادہ تھا کہ میں کوئی نیکی اور گناہ ایسا نہیں چھوڑوں گا جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ پوچھ لوں، جب میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سے لوگ موجود تھے، میں لوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھنے لگا، لوگ کہنے لگے وابصہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے ہٹو، میں نے کہا کہ میں وابصہ ہوں، مجھے ان کے قریب جانے دو، کیونکہ مجھے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے قریب ہونا پسند ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھ سے فرمایا وابصہ! قریب آجاؤ، چنانچہ میں اتنا قریب ہوا کہ میرا گھٹنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے سے لگنے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وابصہ تم مجھ سے کیا پوچھنے کے لئے آئے ہو، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی بتائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھ سے نیکی اور نگاہ کے متعلق پوچھنے کے لئے آئے ہو، میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تین انگلیاں اکٹھی کیں اور ان سے میرے سینے کو کریدتے ہوئے فرمایا وابصہ! اپنے نفس سے فتوی لیا کرو، نیکی وہ ہوتی ہے جس میں دل مطمئن ہوتا ہے اور نفس کو سکون ملتا ہے اور گناہ وہ ہوتا ہے جو تمہارے دل میں کھٹکتے ہے اور دل میں تردد رہتا ہے، اگرچہ لوگ تمہیں فتوی دیتے رہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، الزبير أبو عبدالسلام كذاب، ولم يسمع من أيوب