حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني عطاء بن ابي رباح ، عن صفوان بن عبد الله بن صفوان ، عن عميه يعلى بن امية ، وسلمة بن امية ، قالا: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، معنا صاحب لنا، فاقتتل هو ورجل من المسلمين، فعض ذلك الرجل بذراعه، فاجتبذ يده من فيه، فطرح ثنيته، فذهب الرجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يساله العقل. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ينطلق احدكم إلى اخيه يعضه عضيض الفحل، ثم ياتي يلتمس العقل؟! لا دية لك". قال: فاطلها رسول الله صلى الله عليه وسلم يعني فابطلها ..حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ عَمَّيْهِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، وَسَلَمَةَ بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَا: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، مَعَنَا صَاحِبٌ لَنَا، فَاقْتَتَلَ هُوَ وَرَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَعَضَّ ذَلِكَ الرَّجُلُ بِذِرَاعِهِ، فَاجْتَبَذَ يَدَهُ مِنْ فِيهِ، فَطَرَحَ ثَنِيَّتَهُ، فَذَهَبَ الرَّجُلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ الْعَقْلَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَنْطَلِقُ أَحَدُكُمْ إِلَى أَخِيهِ يَعَضُّهُ عَضِيضَ الْفَحْلِ، ثُمَّ يَأْتِي يَلْتَمِسُ الْعَقْلَ؟! لَا دِيَةَ لَكَ". قَالَ: فَأَطَلَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي فَأَبْطَلَهَا ..
حضرت یعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ غزوہ تبوک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، راستے میں میرے مزدور (کرایہ دار) کی ایک آدمی سے لڑائی ہوگئی، اس نے اس کا ہاتھ اپنے منہ میں لے کر کاٹ لیا، اس نے جو اپنے ہاتھ کو کھینچا تو اس کا دانت ٹوٹ کر گرگیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا دعوی باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا تو کیا وہ اپنے ہاتھ کو تمہارے منہ میں ہی رہنے دیتا تاکہ تم اسے سانڈ کی طرح چباتے رہتے۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2973، م: 1647، وهذا إسناد حسن