حدثنا سليمان بن حرب ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عبد الملك ابي جعفر ، عن ابي نضرة ، عن سعد بن الاطول ، قال: مات اخي وترك ثلاث مائة دينار، وترك ولدا صغارا، فاردت ان انفق عليهم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن اخاك محبوس بدينه، فاذهب، فاقض عنه"، قال: فذهبت، فقضيت عنه، ثم جئت، فقلت: يا رسول الله، قد قضيت عنه، ولم يبق إلا امراة تدعي دينارين، وليست لها بينة، قال:" اعطها، فإنها صادقة" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ الْأَطْوَلِ ، قَالَ: مَاتَ أَخِي وَتَرَكَ ثَلَاثَ مِائَةِ دِينَارٍ، وَتَرَكَ وَلَدًا صِغَارًا، فَأَرَدْتُ أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَخَاكَ مَحْبُوسٌ بِدَيْنِهِ، فَاذْهَبْ، فَاقْضِ عَنْهُ"، قَالَ: فَذَهَبْتُ، فَقَضَيْتُ عَنْهُ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ قَضَيْتُ عَنْهُ، وَلَمْ يَبْقَ إِلَّا امْرَأَةً تَدَّعِي دِينَارَيْنِ، وَلَيْسَتْ لَهَا بَيِّنَةٌ، قَالَ:" أَعْطِهَا، فَإِنَّهَا صَادِقَةٌ" .
حضرت سعد بن اطول رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرا ایک بھائی فوت ہوگیا، اس نے تین سو دینار ترکے میں چھوڑے اور چھوٹے بچے چھوڑے، میں نے ان پر کچھ خرچ کرنا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا بھائی مقروض ہو کر فوت ہوا ہے لہذا جا کر پہلے ان کا قرض ادا کرو، چنانچہ میں نے جا کر اس کا قرض ادا کیا اور حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اپنے بھائی کا سارا قرض ادا کردیا ہے اور سوائے ایک عورت کے کوئی قرض خواہ نہیں بچا، وہ دو دیناروں کی مدعی ہے لیکن اس کے پاس کوئی گواہ نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے سچا سمجھو اور اس کا قرض بھی ادا کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، عبدالملك أبو جعفر مجهول، لكنه توبع