حدثنا ابو عاصم ، حدثنا وهب بن خالد الحمصي ، قال: حدثتني ام حبيبة بنت العرباض ، عن ابيها ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ياخذ الوبرة من فيء الله عز وجل، فيقول: " ما لي من هذا إلا مثل ما لاحدكم إلا الخمس، وهو مردود فيكم، فادوا الخيط والمخيط فما فوقهما، وإياكم والغلول، فإنه عار وشنار على صاحبه يوم القيامة" ..حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا وَهْبٌ بْنُ خَالِدٍ الْحِمْصِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ الْعِرْبَاضِ ، عَنْ أَبِيهَا ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ الْوَبَرَةَ مِنْ فَيْءِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَيَقُولُ: " مَا لِي مِنْ هَذَا إِلَّا مِثْلَ مَا لِأَحَدِكُمْ إِلَّا الْخُمُسَ، وَهُوَ مَرْدُودٌ فِيكُمْ، فَأَدُّوا الْخَيْطَ وَالْمَخِيطَ فَمَا فَوْقَهُمَا، وَإِيَّاكُمْ وَالْغُلُولَ، فَإِنَّهُ عَارٌ وَشَنَارٌ عَلَى صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" ..
سیدنا عرباض رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں سے ایک بال اٹھاتے اور فرماتے اس میں سے میرا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا تم میں سے کسی کا ہے سوائے خمس کے اور وہ بھی تم پر ہی لوٹا دیا جاتا ہے لہٰذا دھاگہ اور سوئی یا اس سے بھی کم درجے کی چیز ہو تو وہ واپس کر دو اور مال غنیمت میں خیانت سے بچو کیونکہ وہ قیامت کے دن خائن کے لیے باعث عار و ندامت ہو گی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين
قال ابو عبد الرحمن: وروى سفيان، عن ابي سنان، عن وهب هذا، قال 22 عبد الله: عبد الاعلى بن هلال، هو الصواب.قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَرَوَى سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ وَهْبٍ هَذَا، قَالَ 22 عَبْد اللَّهِ: عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ هِلَالٍ، هُوَ الصَّوَابُ.