حدثنا زياد بن الربيع ، قال: حدثنا عباد بن كثير الشامي ، من اهل فلسطين، عن امراة منهم يقال لها: فسيلة ، انها قالت: سمعت ابي يقول: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، امن العصبية ان يحب الرجل قومه؟ قال:" لا، ولكن من العصبية ان ينصر الرجل قومه على الظلم" ، قال ابو عبد الرحمن: سمعت من يذكر من اهل العلم ان اباها يعني فسيلة واثلة بن الاسقع، ورايت ابي جعل هذا الحديث في آخر احاديث واثلة، فظننت انه الحقه في حديث واثلة في الاصلحَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ كَثِيرٍ الشَّامِيُّ ، مِنْ أَهْلِ فِلَسْطِينَ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهَا: فَسِيلَةُ ، أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يُحِبَّ الرَّجُلُ قَوْمَهُ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ أَنْ يَنْصُرَ الرَّجُلُ قَوْمَهُ عَلَى الظُّلْمِ" ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ مَنْ يَذْكُرُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ أَبَاهَا يَعْنِي فَسِيلَةَ وَاثِلَةُ بْنُ الْأَسْقَعِ، وَرَأَيْتُ أَبِي جَعَلَ هَذَا الْحَدِيثَ فِي آخِرِ أَحَادِيثِ وَاثِلَةَ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ أَلْحَقَهُ فِي حَدِيثِ وَاثِلَةَ فِي الأَصَلِ
فسیلہ نامی خاتون اپنے والد سے نقل کرتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا یہ بات بھی عصبیت میں شامل ہے کہ انسان اپنی قوم سے محبت کرے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، عصبیت یہ ہے کہ انسان ظلم کے کام پر اپنی قوم کی مدد کرے۔“ امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ میں نے اہل علم سے سنا ہے کہ فسیلہ کے والد حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ تھے پھر والد صاحب نے بھی یہ حدیث حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کے آخر میں ذکر کی ہے اس لیے میرا خیال ہے کہ یہ حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ ہی کی حدیث ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين أبى مرزوق ورويفع