(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو , سمع بجالة ، يقول:" كنت كاتبا لجزء بن معاوية عم الاحنف بن قيس، فاتانا كتاب عمر قبل موته بسنة، ان اقتلوا كل ساحر، وربما قال سفيان: وساحرة , وفرقوا بين كل ذي محرم من المجوس، وانهوهم عن الزمزمة، فقتلنا: ثلاثة سواحر، وجعلنا نفرق بين الرجل وبين حريمته في كتاب الله، وصنع جزء طعاما كثيرا، وعرض السيف على فخذه، ودعا المجوس فالقوا وقر بغل او بغلين من ورق، واكلوا من غير زمزمة، ولم يكن عمر اخذ، وربما قال سفيان: قبل الجزية من المجوس، حتى شهد عبد الرحمن بن عوف ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اخذها من مجوس هجر، وقال ابي: قال سفيان: حج بجالة مع مصعب سنة سبعين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو , سَمِعَ بَجَالَةَ ، يَقُولُ:" كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، فَأَتَانَا كِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ، أَنْ اقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: وَسَاحِرَةٍ , وَفَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مَحْرَمٍ مِنْ الْمَجُوسِ، وَانْهَوْهُمْ عَنِ الزَّمْزَمَةِ، فَقَتَلْنَا: ثَلَاثَةَ سَوَاحِرَ، وَجَعَلْنَا نُفَرِّقُ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ حَرِيمَتِهِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَصَنَعَ جَزْءٌ طَعَامًا كَثِيرًا، وَعَرَضَ السَّيْفَ عَلَى فَخِذِهِ، وَدَعَا الْمَجُوسَ فَأَلْقَوْا وِقْرَ بَغْلٍ أَوْ بَغْلَيْنِ مِنْ وَرِقٍ، وَأَكَلُوا مِنْ غَيْرِ زَمْزَمَةٍ، وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ أَخَذَ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: قَبِلَ الْجِزْيَةَ مِنْ الْمَجُوسِ، حَتَّى شَهِدَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ، وقَالَ أَبِي: قَالَ سُفْيَانُ: حَجَّ بَجَالَةُ مَعَ مُصْعَبٍ سَنَةَ سَبْعِينَ.
بجالہ کہتے ہیں کہ میں احنف بن قیس کے چچا جزء بن معاویہ کا کاتب تھا، ہمارے پاس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ان کی وفات سے ایک سال پہلے خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ ہر جادوگر کو قتل کر دو، مجوس میں جن لوگوں نے اپنے محرم رشتہ داروں سے شادیاں کر رکھی ہیں، ان میں تفریق کرا دو، اور انہیں زمزمہ (کھانا کھاتے وقت مجوسی ہلکی آواز سے کچھ پڑھتے تھے) سے روک دو۔ چنانچہ ہم نے تین جادوگر قتل کیے، اور کتاب اللہ کی روشنی میں مرد اور اس کی محرم بیوی کے درمیان تفریق کا عمل شروع کر دیا۔ پھر جزء نے ایک مرتبہ بڑی مقدار میں کھانا تیار کروایا، اپنی ران پر تلوار رکھی اور مجوسیوں کو کھانے کے لئے بلایا، انہوں نے ایک یا دو خچروں کے برابر وزن کی چاندی لا کر ڈھیر کر دی اور بغیر زمزمے کے کھانا کھا لیا۔ نیز پہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیتے تھے لیکن جب سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس بات کی گواہی دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر نامی علاقے کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا تو انہوں نے بھی مجوسیوں سے جزیہ لینا شروع کر دیا۔ سفیان کہتے ہیں کہ بجالہ نے مصعب کے ساتھ سنہ 70ھ میں حج کیا تھا۔