(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا وهيب ، حدثنا عمرو بن يحيى ، عن عباد بن تميم ، عن عبد الله بن زيد بن عاصم ، قال: لما افاء الله على رسوله يوم حنين ما افاء، قال: قسم في الناس في المؤلفة قلوبهم، ولم يقسم ولم يعط الانصار شيئا، فكانهم وجدوا إذ لم يصبهم ما اصاب الناس، فخطبهم، فقال:" يا معشر الانصار، الم اجدكم ضلالا، فهداكم الله بي، وكنتم متفرقين، فجمعكم الله بي، وعالة فاغناكم الله بي؟"، قال: كلما قال شيئا، قالوا: الله ورسوله امن، قال:" ما يمنعكم ان تجيبوني؟" قالوا: الله ورسوله امن، قال:" لو شئتم لقلتم جئتنا كذا وكذا، اما ترضون ان يذهب الناس بالشاة والبعير، وتذهبون برسول الله إلى رحالكم، لولا الهجرة، لكنت امرا من الانصار، لو سلك الناس واديا وشعبا، لسلكت وادي الانصار وشعبهم، الانصار شعار والناس دثار، وإنكم ستلقون بعدي اثرة، فاصبروا حتى تلقوني على الحوض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ ، قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ يَوْمَ حُنَيْنٍ مَا أَفَاءَ، قَالَ: قَسَمَ فِي النَّاسِ فِي الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ، وَلَمْ يَقْسِمْ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَكَأَنَّهُمْ وَجَدُوا إِذْ لَمْ يُصِبْهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ، فَخَطَبَهُمْ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا، فَهَدَاكُمْ اللَّهُ بِي، وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ، فَجَمَعَكُمْ اللَّهُ بِي، وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمْ اللَّهُ بِي؟"، قَالَ: كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ، قَالَ:" مَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تُجِيبُونِي؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ، قَالَ:" لَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ جِئْتَنَا كَذَا وَكَذَا، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ، وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى رِحَالِكُمْ، لَوْلَا الْهِجْرَةُ، لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الْأَنْصَارِ، لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهُمْ، الْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ، وَإِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ".
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مال غنیمت عطاء فرمایا: تو آپ نے اسے ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جو مؤلفۃ القلوب میں سے تھے اور انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہیں دیا، غالباً اس چیز کو انصار نے محسوس کیا کہ انہیں وہ نہیں ملا جو دوسرے لوگوں کو مل گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ان کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے گروہ انصار! کیا میں نے تمہیں گم کر دہ راہ نہیں پایا کہ اللہ نے میرے ذریعے تمہیں غنی کر دیا؟ ان تمام باتوں کے جواب میں انصار صرف یہی کہتے رہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا بہت بڑا احسان ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے، تم کوئی جواب نہیں دیتے؟ انہوں نے پھر یہی کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کا بہت بڑا احسان ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہتے تو یوں بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ ہمارے پاس اس اس حال میں آئے تھے وغیرہ، کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ لوگ بکری اور اونٹ لے جائیں اور تم اپنے خیموں میں پیغمبر اللہ کو لے جاؤ، اگر ہجرت نہ ہو تی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا، اگر لوگ کسی ایک راستے پر چل رہے ہوں تو میں انصار کے راستے پر چلوں گا، انصار میرے جسم کا لگا ہوا کپڑا ہیں اور باقی لوگ اوپر کا کپڑا ہیں اور تم میرے بعد ترجیحات دیکھو گے، سو اس وقت تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آملو۔