(حديث مرفوع) حدثنا حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، قال: حدثنا هشام الدستوائي ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن هلال بن ابي ميمونة ، عن عطاء بن يسار ، عن رفاعة الجهني قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا بالكديد او قال: بقديد فجعل رجال منا يستاذنون إلى اهليهم، فياذن لهم، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" ما بال رجال يكون شق الشجرة التي تلي رسول الله صلى الله عليه وسلم ابغض إليهم من الشق الآخر" فلم نر عند ذلك من القوم إلا باكيا، فقال رجل: إن الذي يستاذنك بعد هذا لسفيه، فحمد الله، وقال حينئذ:" اشهد عند الله لا يموت عبد يشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله صدقا من قلبه، ثم يسدد إلا سلك في الجنة" قال:" وقد وعدني ربي عز وجل ان يدخل من امتي سبعين الفا لا حساب عليهم ولا عذاب، وإني لارجو ان لا يدخلوها حتى تبوءوا انتم ومن صلح من آبائكم وازواجكم وذرياتكم مساكن في الجنة" وقال:" إذا مضى نصف الليل او قال ثلثا الليل ينزل الله عز وجل إلى السماء الدنيا، فيقول: لا اسال عن عبادي احدا غيري، من ذا يستغفرني فاغفر له، من الذي يدعوني استجيب له، من ذا الذي يسالني اعطيه حتى ينفجر الصبح".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ رِفَاعَةَ الْجُهَنِيِّ قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْكَدِيدِ أَوْ قَالَ: بِقُدَيْدٍ فَجَعَلَ رِجَالٌ مِنَّا يَسْتَأْذِنُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ، فَيَأْذَنُ لَهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ رِجَالٍ يَكُونُ شِقُّ الشَّجَرَةِ الَّتِي تَلِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْغَضَ إِلَيْهِمْ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ" فَلَمْ نَرَ عِنْدَ ذَلِكَ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا بَاكِيًا، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الَّذِي يَسْتَأْذِنُكَ بَعْدَ هَذَا لَسَفِيهٌ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَقَالَ حِينَئِذٍ:" أَشْهَدُ عِنْدَ اللَّهِ لَا يَمُوتُ عَبْدٌ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، ثُمَّ يُسَدِّدُ إِلَّا سُلِكَ فِي الْجَنَّةِ" قَالَ:" وَقَدْ وَعَدَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَدْخُلُوهَا حَتَّى تَبَوَّءُوا أَنْتُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِكُمْ وَأَزْوَاجِكُمْ وَذُرِّيَّاتِكُمْ مَسَاكِنَ فِي الْجَنَّةِ" وَقَالَ:" إِذَا مَضَى نِصْفُ اللَّيْلِ أَوْ قَالَ ثُلُثَا اللَّيْلِ يَنْزِلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَقُولُ: لَا أَسْأَلُ عَنْ عِبَادِي أَحَدًا غَيْرِي، مَنْ ذَا يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ، مَنْ الَّذِي يَدْعُونِي أَسْتَجِيبُ لَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي أُعْطِيهِ حَتَّى يَنْفَجِرَ الصُّبْحُ".
سیدنا رفاعہ جہنی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکر مہ سے واپس آرہے تھے کہ مقام کدید میں پہنچ کر کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اہل خانہ کے پاس واپس جانے کی اجازت مانگنے لگے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دیدی پھر کھڑے ہو کر اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ درخت وہ حصہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہے انہیں دوسرے حصے سے زیادہ اس سے نفرت ہے اس وقت ہم نے سب لوگوں کو روتے ہوئے دیکھا پھر ایک آدمی کہنے لگا کہ اب کے بعد جو شخص آپ سے جانے کی اجازت مانگے گا وہ بیوقوف ہی ہو گا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الحمدللہ کہا اور فرمایا: اب میں گواہی دیتا ہوں کہ جو شخص لا الہ الا اللہ کی اور میرے رسول ہو نے کی گواہی دیتا ہو جو صدق قلب اور درست نیت کے ساتھ ہو مر جائے وہ جنت میں داخل ہو گا اور میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ جنت میں میری امت کے ستر ہزار ایسے آدمیوں کو داخل کر ے گا جن کا کوئی حساب کتاب اور انہیں کوئی عذاب نہ ہو گا اور مجھے امید ہے کہ وہ اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک تم اور تمہارے آباؤ اجداد اور بیوی بچوں میں سے جو اس کے قابل ہوں گے جنت میں داخل نہ ہو جائیں۔
اور فرمایا کہ جب ایک نصف یا دو تہائی رات بیت جاتی ہے تو اللہ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ میں اپنے بندوں کے متعلق کسی دوسرے سے نہیں پوچھوں گا کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے کہ میں اسے معاف کر دو کون ہے جو مجھ سے دعا کر ے اور میں اس کی دعا قبول کر و اور کون ہے جو مجھ سے سوال کر ے اور میں اسے عطا کر وں یہ اعلان صبح صادق تک ہوتا رہتا ہے۔ سیدنا رفاعہ جہنی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکر مہ سے واپس آرہے تھے کہ مقام کدیدی پہنچ کر کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اہل خانہ کے پاس واپس جانے کی اجازت مانگنے لگے پھر روای نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا سیدنا ابوبکر نے فرمایا: اب کے بعد جو شخص آپ سے جانے کی اجازت مانگے گا وہ بیوقوف ہو گا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الحمدللہ کہا اور فرمایا کہ اب میں گواہی دیتا ہوں کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جو صدق قلب اور درست نیت کے ساتھ ہو مر جائے وہ جنت میں داخل ہو گا پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔