(حديث مرفوع) حدثنا حجين بن المثنى ابو عمر ، قال: حدثنا عبد العزيز يعني ابن عبد الله بن ابي سلمة ، عن عبد الله بن الفضل ، عن سليمان بن يسار ، عن جعفر بن عمرو الضمري ، قال: خرجت مع عبيد الله بن عدي بن الخيار إلى الشام، فلما قدمنا حمص، قال لي عبيد الله: هل لك في وحشي نساله عن قتل حمزة؟ قلت: نعم , وكان وحشي يسكن حمص، قال: فسالنا عنه، فقيل لنا: هو ذاك في ظل قصره كانه حميت , قال: فجئنا حتى وقفنا عليه، فسلمنا عليه فرد علينا السلام، قال: وعبيد الله معتجر بعمامته ما يرى وحشي إلا عينيه ورجليه، فقال عبيد الله: يا وحشي، اتعرفني؟ قال: فنظر إليه، ثم قال: لا والله، إلا اني اعلم ان عدي بن الخيار تزوج امراة يقال لها: ام قتال ابنة ابي العيص، فولدت له غلاما بمكة، فاسترضعه , فحملت ذلك الغلام مع امه، فناولتها إياه، فلكاني نظرت إلى قدميك. قال: فكشف عبيد الله وجهه، ثم قال: الا تخبرنا بقتل حمزة؟ قال: نعم، إن حمزة قتل طعيمة بن عدي ببدر، فقال لي: مولاي جبير بن مطعم: إن قتلت حمزة بعمي فانت حر , فلما خرج الناس يوم عينين، قال: وعينين جبيل تحت احد، وبينه واد خرجت مع الناس إلى القتال، فلما ان اصطفوا للقتال، قال: خرج سباع: من مبارز؟ قال: فخرج إليه حمزة بن عبد المطلب، فقال: يا سباع، يا بن ام انمار، يا ابن مقطعة البظور، اتحاد الله ورسوله , ثم شد عليه فكان كامس الذاهب، واكمنت لحمزة تحت صخرة، حتى إذا مر علي، فلما ان دنا مني رميته، بحربتي فاضعها في ثنته حتى خرجت من بين وركيه. قال: فكان ذلك العهد به , قال: فلما رجع الناس رجعت معهم، قال: فاقمت بمكة حتى فشا فيها الإسلام، قال: ثم خرجت إلى الطائف، قال: فارسل إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وقيل له: إنه لا يهيج للرسل , قال: فخرجت معهم حتى قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما رآني , قال:" انت وحشي؟" , قال: قلت: نعم , قال:" انت قتلت حمزة؟" , قال: قلت: قد كان من الامر ما بلغك يا رسول الله، إذ قال:" ما تستطيع ان تغيب عني وجهك" , قال: فرجعت، فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وخرج مسيلمة الكذاب، قال: قلت: لاخرجن إلى مسيلمة لعلي اقتله فاكافئ به حمزة , قال: فخرجت مع الناس، فكان من امرهم ما كان، قال: فإذا رجل قائم في ثلمة جدار كانه جمل اورق، ثائر راسه , قال: فارميه بحربتي، فاضعها بين ثدييه، حتى خرجت من بين كتفيه، قال: ووثب إليه رجل من الانصار، قال: فضربه بالسيف على هامته. قال عبد الله بن الفضل: فاخبرني سليمان بن يسار انه سمع عبد الله بن عمر يقول: فقالت جارية على ظهر بيت: وامير المؤمنين، قتله العبد الاسود.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى أَبُو عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرٍو الضَّمْرِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ إِلَى الشَّامِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا حِمْصَ، قَالَ لِي عُبَيْدُ اللَّهِ: هَلْ لَكَ فِي وَحْشِيٍّ نَسْأَلُهُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَةَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ , وكان وَحْشِيٌّ يَسْكُنُ حِمْصَ، قَالَ: فَسَأَلْنَا عَنْهُ، فَقِيلَ لَنَا: هُوَ ذَاكَ فِي ظِلِّ قَصْرِهِ كَأَنَّهُ حَمِيتٌ , قَالَ: فَجِئْنَا حَتَّى وَقَفْنَا عَلَيْهِ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيْنَا السَّلَامَ، قَالَ: وَعُبَيْدُ اللَّهِ مُعْتَجِرٌ بِعِمَامَتِهِ مَا يَرَى وَحْشِيٌّ إِلَّا عَيْنَيْهِ وَرِجْلَيْهِ، فَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: يَا وَحْشِيُّ، أَتَعْرِفُنِي؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، إلا أني أعلم أن عدي بن الخيار تزوج امرأة يقال لها: أم قتال ابنة أبي العيص، فولدت له غلاما بمكة، فاسترضعه , فحملت ذلك الغلام مع أمه، فناولتها إياه، فلكأني نظرت إلى قدميك. قَالَ: فَكَشَفَ عُبَيْدُ اللَّهِ وَجْهَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُخْبِرُنَا بِقَتْلِ حَمْزَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّ حَمْزَةَ قَتَلَ طُعَيْمَةَ بْنَ عَدِيٍّ بِبَدْرٍ، فَقَالَ لِي: مَوْلَايَ جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: إِنْ قَتَلْتَ حَمْزَةَ بِعَمِّي فَأَنْتَ حُرٌّ , فَلَمَّا خَرَجَ النَّاسُ يَوْمَ عِينِينَ، قَالَ: وَعِينِينُ جُبَيْلٌ تَحْتَ أُحُدٍ، وَبَيْنَهُ وَادٍ خَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ إِلَى الْقِتَالِ، فَلَمَّا أَنْ اصْطَفُّوا لِلْقِتَالِ، قَالَ: خَرَجَ سِبَاعٌ: مَنْ مُبَارِزٌ؟ قَالَ: فَخَرَجَ إِلَيْهِ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ: يَا سِبَاعُ، يَا بْنُ أُمِّ أَنْمَارٍ، يَا ابْنَ مُقَطِّعَةِ الْبُظُورِ، أَتُحَادُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ , ثُمَّ شَدَّ عَلَيْهِ فَكَانَ كَأَمْسِ الذَّاهِبِ، وَأَكْمَنْتُ لِحَمْزَةَ تَحْتَ صَخْرَةٍ، حَتَّى إِذَا مَرَّ عَلَيَّ، فَلَمَّا أَنْ دَنَا مِنِّي رَمَيْتُهُ، بِحَرْبَتِي فَأَضَعُهَا فِي ثُنَّتِهِ حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ وَرِكَيْهِ. قَالَ: فَكَانَ ذَلِكَ الْعَهْدُ بِهِ , قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ النَّاسُ رَجَعْتُ مَعَهُمْ، قَالَ: فَأَقَمْتُ بِمَكَّةَ حَتَّى فَشَا فِيهَا الْإِسْلَامُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَى الطَّائِفِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ لَا يَهِيجُ لِلرُّسُلِ , قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَهُمْ حَتَّى قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا رَآنِي , قَالَ:" أَنْتَ وَحْشِيٌّ؟" , قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ:" أَنْتَ قَتَلْتَ حَمْزَةَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: قَدْ كَانَ مِنَ الْأَمْرِ مَا بَلَغَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذْ قَالَ:" مَا تَسْتَطِيعُ أَنْ تُغَيِّبَ عَنِّي وَجْهَكَ" , قَالَ: فَرَجَعْتُ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجَ مُسَيْلِمَةُ الْكَذَّابُ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَخْرُجَنَّ إِلَى مُسَيْلِمَةَ لَعَلِّي أَقْتُلُهُ فَأُكَافِئَ بِهِ حَمْزَةَ , قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِمْ مَا كَانَ، قَالَ: فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي ثَلْمَةِ جِدَارٍ كَأَنَّهُ جَمَلٌ أَوْرَقُ، ثَائِرٌ رَأْسُهُ , قَالَ: فَأَرْمِيهِ بِحَرْبَتِي، فَأَضَعُهَا بَيْنَ ثَدْيَيْهِ، حَتَّى خَرَجَتْ مِنْ بَيْنِ كَتِفَيْهِ، قَالَ: وَوَثَبَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَضَرَبَهُ بِالسَّيْفِ عَلَى هَامَتِهِ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ: فَأَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقٌولُ: فَقَالَتْ جَارِيَةٌ عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ: وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، قَتَلَهُ الْعَبْدُ الْأَسْوَدُ.
جعفر بن امیہ ضمری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عبیداللہ بن عدی کے ساتھ شام کے سفر میں نکلا جب ہم شہر حمص میں پہنچے تو عبیداللہ نے مجھ سے کہا اگر تمہاری مرضی ہو تو چلو وحشی حبشی کے پاس چل کر سیدنا حمزہ کی شہادت کے متعلق پوچھتے ہیں میں نے کہا چلو سیدنا وحشی حمص میں ہی رہتے تھے ہم نے لوگوں سے اس کا پتہ پوچھا: تو ایک شخص نے کہا وہ سامنے اپنے محل کے سایہ میں بیٹھے ہوئے ہیں جیسے پانی سے بھری ہوئی بڑی مشک۔ ہم ان کے پاس گئے اور وہاں پہنچ کر انہیں سلام کیا سیدنا وحشی نے سلام کا جواب دیا عبیداللہ اس وقت چادر میں اس طرح لپٹے ہوئے تھے کہ سوائے آنکھوں اور پاؤں کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہ آتا تھا عبیداللہ نے سیدنا وحشی سے پوچھا کہ آپ مجھ کو پہچانتے ہو وحشی نے غور سے دیکھا اور کہنے لگا کہ اللہ کی قسم میں اور تو جانتا نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن خیار نے ام القتال سے نکاح کیا تھا عدی اس عورت سے ایک لڑکا مکہ میں پیدا ہوا میں نے اس لڑکے کے لئے دودھ پلانے والی تلاش کی اور لڑکے کو مال سمیت لے جا کر ان کو دے دیا اب مجھے تمہارے پاؤں دیکھ کر اس لڑکے کا خیال ہوا یہ سن کر عبیداللہ نے اپنا منہ کھول دیا اور کہا سیدنا حمزہ کا واقعہ بیان کیجیے۔ وحشی نے کہا ہاں قصہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں طعیمہ بن عدی کو حمزہ نے قتل کر دیا تھا یہ دیکھ کر میرے آقا جبیر بن مطعم نے کہا اگر تو میرے چچا کے عوض حمزہ کو قتل کر دے گا تو میری طرف سے تو آزاد ہے چنانچہ جب لوگ قریش عینین والے سال نکلے تو میں بھی ان کے ساتھ لڑائی کے لئے چلا صفیں درست ہو نے کے بعد سباع میدان میں نکلا اور آواز دی کیا کوئی مقابلہ پر آسکتا ہے حمزہ بن عبدالمطلب اس کے مقابلے کے لئے نکلے اور کہنے لگے کہ اے سباع عورتوں کے ختنہ کرنے والی کے بیٹے کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے یہ کہہ کر سیدنا حمزہ نے اس پر حملہ کر دیا اور سباع مارا گیا
اس دوران میں ایک پتھر کی آڑ میں سیدنا حمزہ کے مارنے کے لئے چھپ گیا تھا جب آپ میرے قریب آئے تو میں نے برچھی ماری جو خصیوں کے مقام پر لگ کر سرین کے پیچھے پار ہو گئی بس یہ برچھی مارنے کا قصہ تھا جس سے سیدنا حمزہ شہید ہو گئے پھر جب سب لوگ لوٹ کر آئے ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ لوٹ آیا اور مکہ میں رہنے لگا۔ اور جب مکہ میں اسلام پھیل گیا تو میں مکہ سے نکل کر چلا گیا طائف والوں نے رسول اللہ کی خدمت میں کچھ قاصد بھیجے اور مجھ سے کہا کہ حضور قاصدوں سے کچھ تعرض نہیں کرتے تم ان کے ساتھ چلے جاؤ میں قاصدوں کے ہمراہ چل دیا اور حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے فرمایا کہ تو وحشی ہے میں نے عرض کیا: جی ہاں فرمایا: کیا تو نے حمزہ کو شہید کیا تھا میں نے عرض کیا: حضور کو جو خبر پہنچی ہے واقعہ تو یہ ہے کہ فرمایا: کیا تجھ سے ہو سکتا ہے کہ اپنا چہرہ مجھے نہ دکھائے میں وہاں سے چلا آیا۔ حضور کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذاب نے خروج کیا تو میں نے کہا میں مسیلمہ کذاب کا مقابلہ کر وں گا تاکہ اگر میں اس کو قتل کر دوں تو سیدنا حمزہ کی شہادت کا شاید قرض ادا ہو جائے چنانچہ میں لوگوں کے ساتھ نکلا اس درمیان میں مسیلمہ کا جو واقعہ ہو نا تھا وہ ہوا یعنی مسلمانوں کو فتح ہوئی مسیلمہ مارا گیا سیدنا وحشی کہتے ہیں کہ میں نے مسیلمہ کو دیوار کے شگاف میں کھڑا ہوا دیکھا اس وقت مسیلمہ کا رنگ کچھ خاکی معلوم ہوتا تھا اور بالکل پراگندہ تھے میں نے سیدنا حمزہ والی برچھی اس کے ماری جو دونوں شانوں کے بیچ میں لگی اور پار ہو گئی اتنے میں ایک اور انصاری آدمی حملہ آوار ہوا اور اس نے مسیلمہ کے سر پر تلوار ماری اور اسے قتل کر دیا۔