(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: قال ابي كما حدثني ابن إسحاق ، عن يعقوب بن عتبة ، عن مسلم بن عبد الله بن خبيب الجهني ، عن جندب بن مكيث الجهني ، قال:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم غالب بن عبد الله الكلبي كلب ليث إلى بني ملوح بالكديد، وامره ان يغير عليهم، فخرج، فكنت في سريته، فمضينا حتى إذا كنا بقديد لقينا به الحارث بن مالك وهو ابن البرصاء الليثي، فاخذناه، فقال: إنما جئت لاسلم، فقال غالب بن عبد الله: إن كنت إنما جئت مسلما، فلن يضرك رباط يوم وليلة، وإن كنت على غير ذلك، استوثقنا منك , قال: فاوثقه رباطا، ثم خلف عليه رجلا اسود كان معنا، فقال: امكث معه حتى نمر عليك، فإن نازعك، فاجتز راسه. قال: ثم مضينا حتى اتينا بطن الكديد، فنزلنا عشيشية بعد العصر، فبعثني اصحابي في رئية، فعمدت إلى تل يطلعني على الحاضر، فانبطحت عليه وذلك المغرب، فخرج رجل منهم، فنظر، فرآني منبطحا على التل، فقال لامراته: والله إني لارى على هذا التل سوادا ما رايته اول النهار، فانظري لا تكون الكلاب اجترت بعض اوعيتك , قال: فنظرت، فقالت: لا والله ما افقد شيئا , قال: فناوليني قوسي وسهمين من كنانتي، قال: فناولته، فرماني بسهم فوضعه في جنبي، قال: فنزعته فوضعته ولم اتحرك، ثم رماني بآخر، فوضعه في راس منكبي، فنزعته، فوضعته ولم اتحرك , فقال لامراته: والله لقد خالطه سهماي، ولو كان زائلة لتحرك، فإذا اصبحت فابتغي سهمي، فخذيهما، لا تمضغهما علي الكلاب. قال: وامهلناهم حتى راحت رائحتهم، حتى إذا احتلبوا وعطنوا او سكنوا، وذهبت عتمة من الليل، شننا عليهم الغارة، فقتلنا من قتلنا منهم، واستقنا النعم، فتوجهنا قافلين , وخرج صريخ القوم إلى قومهم مغوثا، وخرجنا سراعا، حتى نمر بالحارث ابن البرصاء وصاحبه، فانطلقنا به معنا، واتانا صريخ الناس، فجاءنا ما لا قبل لنا به، حتى إذا لم يكن بيننا وبينهم إلا بطن الوادي، اقبل سيل حال بيننا وبينهم، بعثه الله تعالى من حيث شاء، ما راينا قبل ذلك مطرا ولا حالا، فجاء بما لا يقدر احد ان يقوم عليه، فلقد رايناهم وقوفا ينظرون إلينا ما يقدر احد منهم ان يتقدم، ونحن نحوزها سراعا حتى اسندناها في المشلل، ثم حدرناها عنا، فاعجزنا القوم بما في ايدينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: قَالَ أَبِي كَمَا حَدَّثَنِي ابْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خُبَيْب الْجُهَنِيِّ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ مَكِيثٍ الْجُهَنِيِّ ، قَالَ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَالِبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْكَلْبِيَّ كَلْبَ لَيْثٍ إِلَى بَنِي مُلَوَّحٍ بِالْكَدِيدِ، وَأَمَرَهُ أَنْ يُغِيرَ عَلَيْهِمْ، فَخَرَجَ، فَكُنْتُ فِي سَرِيَّتِهِ، فَمَضَيْنَا حَتَّى إِذَا كُنَّا بِقُدَيْدٍ لَقِينَا بِهِ الْحَارِثَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ ابْنُ الْبَرْصَاءِ اللَّيْثِيُّ، فَأَخَذْنَاهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا جِئْتُ لِأُسْلِمَ، فَقَالَ غَالِبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنْ كُنْتَ إِنَّمَا جِئْتَ مُسْلِمًا، فَلَنْ يَضُرَّكَ رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، وَإِنْ كُنْتَ عَلَى غَيْرِ ذَلِكَ، اسْتَوْثَقْنَا مِنْكَ , قَالَ: فَأَوْثَقَهُ رِبَاطًا، ثُمَّ خَلَّفَ عَلَيْهِ رَجُلًا أَسْوَدَ كَانَ مَعَنَا، فَقَالَ: امْكُثْ مَعَهُ حَتَّى نَمُرَّ عَلَيْكَ، فَإِنْ نَازَعَكَ، فَاجْتَزَّ رَأْسَهُ. قَالَ: ثُمَّ مَضَيْنَا حَتَّى أَتَيْنَا بَطْنَ الْكَدِيدِ، فَنَزَلْنَا عُشَيْشِيَةً بَعْدَ الْعَصْرِ، فَبَعَثَنِي أَصْحَابِي فِي رَئِيَّةٍ، فَعَمَدْتُ إِلَى تَلٍّ يُطْلِعُنِي عَلَى الْحَاضِرِ، فَانْبَطَحْتُ عَلَيْهِ وَذَلِكَ الْمَغْرِبَ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَنَظَرَ، فَرَآنِي مُنْبَطِحًا عَلَى التَّلِّ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَى عَلَى هَذَا التَّلِّ سَوَادًا مَا رَأَيْتُهُ أَوَّلَ النَّهَارِ، فَانْظُرِي لَا تَكُونُ الْكِلَابُ اجْتَرَّتْ بَعْضَ أَوْعِيَتِكِ , قَالَ: فَنَظَرَتْ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ مَا أَفْقِدُ شَيْئًا , قَالَ: فَنَاوِلِينِي قَوْسِي وَسَهْمَيْنِ مِنْ كِنَانَتِي، قَالَ: فَنَاوَلَتْهُ، فَرَمَانِي بِسَهْمٍ فَوَضَعَهُ فِي جَنْبِي، قَالَ: فَنَزَعْتُهُ فَوَضَعْتُهُ وَلَمْ أَتَحَرَّكْ، ثُمَّ رَمَانِي بِآخَرَ، فَوَضَعَهُ فِي رَأْسِ مَنْكِبِي، فَنَزَعْتُهُ، فَوَضَعْتُهُ وَلَمْ أَتَحَرَّكْ , فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: وَاللَّهِ لَقَدْ خَالَطَهُ سَهْمَايَ، وَلَوْ كَانَ زَائِلَةً لَتَحَرَّكَ، فَإِذَا أَصْبَحْتِ فَابْتَغِي سَهْمَيَّ، فَخُذِيهِمَا، لَا تَمْضُغُهُمَا عَلَيَّ الْكِلَابُ. قَالَ: وَأَمْهَلْنَاهُمْ حَتَّى رَاحَتْ رَائِحَتُهُمْ، حَتَّى إِذَا احْتَلَبُوا وَعَطَنُوا أَوْ سَكَنُوا، وَذَهَبَتْ عَتَمَةٌ مِنَ اللَّيْلِ، شَنَنَّا عَلَيْهِمْ الْغَارَةَ، فَقَتَلْنَا مَنْ قَتَلْنَا مِنْهُمْ، وَاسْتَقْنَا النَّعَمَ، فَتَوَجَّهْنَا قَافِلِينَ , وَخَرَجَ صَرِيخُ الْقَوْمِ إِلَى قَوْمِهِمْ مُغَوِّثًا، وَخَرَجْنَا سِرَاعًا، حَتَّى نَمُرَّ بِالْحَارِثِ ابْنِ الْبَرْصَاءِ وَصَاحِبِهِ، فَانْطَلَقْنَا بِهِ مَعَنَا، وَأَتَانَا صَرِيخُ النَّاسِ، فَجَاءَنَا مَا لَا قِبَلَ لَنَا بِهِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ إِلَّا بَطْنُ الْوَادِي، أَقْبَلَ سَيْلٌ حَالَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، بَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالَى مِنْ حَيْثُ شَاءَ، مَا رَأَيْنَا قَبْلَ ذَلِكَ مَطَرًا وَلَا حَالًا، فَجَاءَ بِمَا لَا يَقْدِرُ أَحَدٌ أَنْ يَقُومَ عَلَيْهِ، فَلَقَدْ رَأَيْنَاهُمْ وُقُوفًا يَنْظُرُونَ إِلَيْنَا مَا يَقْدِرُ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ، وَنَحْنُ نُحَوِّزُهَا سِرَاعًا حَتَّى أَسْنَدْنَاهَا فِي الْمَشْلَلِ، ثُمَّ حَدَرْنَاهَا عَنَّا، فَأَعْجَزْنَا الْقَوْمَ بِمَا فِي أَيْدِينَا".
سیدنا جندب بن مکیث سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غالب بن عبداللہ کلبی کو بنو ملوح کے پاس جو مقام قدید میں رہتے تھے بھیجا اور ان پر شب خون مارنے کا حکم دیا وہ روانہ ہوئے اس دستے میں میں بھی شریک تھا ہم چلتے رہے جب مقام قدید پر پہنچے تو ہمیں حارث بن مالک مل گئے ہم نے انہیں پکڑ لیا وہ کہنے لگا کہ میں تو اسلام قبول کرنے کے لئے آرہا تھا سیدنا غالب نے فرمایا: اگر تم واقعی مسلمان ہو نے کے لئے آرہے تھے تو یہ ایک دن کی قید تمہارے لئے کسی طرح نقصان دہ نہیں ہو گی اور اگر کسی دوسرے ارادے سے آرہے تھے تو ہم نے تمہیں باندھ لیا ہے یہ کہہ کر انہوں نے حارث کی مشکیں کس دیں اور ایک حبشی کو جو ہمارے ساتھ تھا ان پر نگران مقرر کر کے اپنے پیچھے چھوڑ دیا اور اس سے یہ کہہ دیا کہ تم یہیں رکو تاآنکہ ہم واپس آجائیں اس دوران اگر یہ تم سے مزاحمت کرنے کی کوشش کر ے تو اس کا سر قلم کر دینا۔ اس کے بعد ہم لوگ روانہ ہوئے اور بطن قدیدہ میں پہنچ کر نماز عصر کے بعد مقام عشیشہ میں پڑاؤ کیا مجھے میرے ساتھیوں نے ایک اونچی جگہ پر بھیج دیا میں ایک ٹیلے پر چڑھ گیا تاکہ میں ہر آنے جانے والے پر نظر رکھ سکوں میں مغرب کے وقت اس پر چڑھا تھا دشمن کا ایک آدمی باہر نکلا اور اس نے مجھے ٹیلے پر چڑھے ہوئے دیکھ لیا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ مجھے اس ٹیلے پر انسانی سایہ دکھائی دے رہا ہے جو میں نے دن کے پہلے حصے میں نہیں دیکھا تھا دیکھو کہیں کتوں نے تمہارے برتن گھسیٹ کر باہر تو نہیں پھینک دیئے اس نے دیکھ کر کہا کہ واللہ مجھے تو کوئی چیز کم محسوس نہیں ہو رہی اس نے کہا کہ پھر مجھے کمان اور میرے ترکش میں دو تیر لا کر دو اس نے اسے یہ چیزیں لا کر دے دیں اور اس نے تاک کر مجھے ایک تیر دے مارا جو میرے پہلو پر آ کر لگا میں نے اسے کھینچ کر نکالا اور ایک طرف پھینک دیا اور خود کوئی حرکت نہیں کی اس نے دوسرا تیر بھی مجھے مارا جو میرے کندھے کی جڑ میں آ کر لگا میں نے اسے بھی کھینچ کر نکالا اور ایک طرف پھینک دیا اور خود کوئی حرکت نہیں کی یہ دیکھ کر وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ اسے میرے دونوں تیر لگے ہیں اگر یہ کوئی جاندار چیز ہو تی تو حرکت ضرور کر تی اس لئے صبح ہو نے کے بعد تم میرے تیر تلاش کر کے لے آنا تاکہ کتے اسے میرے ہی خلاف استعمال نہ کر یں ہم نے ان لوگوں کو اسی طرح مہلت دی یہاں تک کہ رات نے اپنے ڈیرے ڈالنے شروع کر دیئے جب ان لوگوں نے جانوروں کا دودھ دوہ لیا اونٹوں کو باند ھ دیا اور خود آرام کرنے لگے اور رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو ہم نے ان پر شب خون مارا کچھ لوگ ہمارے ہاتھوں مارے گئے اور اس کے بعد ہم نے جانوروں کو ہانکا اور واپس روانہ ہو گئے۔
ادھر ان لوگوں کا منادی چیخ چیخ کر لوگوں کو مدد کے لئے پکارنے لگا ہم لوگ تیزی سے چلے جارہے تھے یہاں تک کہ ہم حارث بن مالک اور اس کے ساتھی کے پاس پہنچ گئے اور انہیں بھی ساتھ لے کر روانہ ہوئے اسی اثناء میں لوگوں کے جوش و خروش سے بھرپور نعروں کی آواز سنائی دینے لگی جب ہمارے اور ان کے درمیان صرف بطحن وادی کی آڑ رہ گئی تو اچانک بارش شروع ہو گئی جو ہمارے اور ان کے درمیان حائل تھی اور جسے اللہ نے ہمارے لئے بھیج دیا ہم نے اس سے پہلے ایسی بارش دیکھی اور نہ اب تک اتنی بارش ہوئی ہے کوئی بھی اس کے سامنے نہ ٹھہر سکا ہم نے انہیں دیکھا کہ وہ کھڑے ہوئے اور ہمیں دیکھ رہے ہیں لیکن کسی کی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ آگے بڑھ سکے جبکہ ہم تیزی سے اپنی چیزوں کو سمیٹتے ہوئے بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم لوگ مشلل نامی جگہ پر پہنچے اور وہاں سے نیچے اتر آئے اور دشمن کو اپنے قبضے میں موجود جانوروں کو حاصل کرنے سے عاجز کر دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مسلم بن عبدالله بن خبيب الجهني مجهول