(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا زكريا بن إسحاق ، قال: حدثني عمرو بن ابي سفيان ، قال: حدثني مسلم بن شعبة , ان علقمة استعمل اباه على عرافة قومه، قال مسلم فبعثني إلى مصدقة في طائفة من قومي، قال فخرجت حتى آتي شيخا يقال له: سعر في شعب من الشعاب، فقلت إن ابي بعثني إليك لتعطيني صدقة غنمك، فقال: اي ابن اخي، واي نحو تاخذون؟ فقلت: ناخذ افضل ما نجد، فقال الشيخ: إني لفي شعب من هذه الشعاب في غنم لي، إذ جاءني رجلان مرتدفان بعيرا , فقالا: إنا رسولا رسول الله صلى الله عليه وسلم، بعثنا إليك لتؤتينا صدقة غنمك، قلت وما هي؟ قالا: شاة، فعمدت إلى شاة قد علمت مكانها، ممتلئة مخاضا او محاضا وشحما، فاخرجتها إليهما، فقالا: هذه شافع، وقد نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ان ناخذ شافعا" , والشافع التي في بطنها ولدها، قال: فقلت: فاي شيء تاخذان؟ قالا: عناقا او جذعة او ثنية، قال: فاخرج لهما عناقا، قال: فقالا: ادفعها إلينا، فتناولاها، وجعلاها معهما على بعيرهما.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ شُعْبَةَ , أَنَّ عَلْقَمَةَ اسْتَعْمَلَ أَبَاهُ عَلَى عِرَافَةِ قَوْمِهِ، قَالَ مُسْلِمٌ فَبَعَثَنِي إِلَى مُصَدِّقَةٍ فِي طَائِفَةٍ مِنْ قَوْمِي، قَالَ فَخَرَجْتُ حَتَّى آتِيَ شَيْخًا يُقَالُ لَهُ: سِعْرٌ فِي شِعْبٍ مِنَ الشِّعَابِ، فَقُلْتُ إِنَّ أَبِي بَعَثَنِي إِلَيْكَ لِتُعْطِيَنِي صَدَقَةَ غَنَمِكَ، فَقَالَ: أَيْ ابْنَ أَخِي، وَأَيَّ نَحْوٍ تَأْخُذُونَ؟ فَقُلْتُ: نَأْخُذُ أَفْضَلَ مَا نَجِدُ، فَقَالَ الشَّيْخُ: إِنِّي لَفِي شِعْبٍ مِنْ هَذِهِ الشِّعَابِ فِي غَنَمٍ لِي، إِذْ جَاءَنِي رَجُلَانِ مُرْتَدِفَانِ بَعِيرًا , فَقَالَا: إِنَّا رَسُولَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَنَا إِلَيْكَ لِتُؤْتِيَنَا صَدَقَةَ غَنَمِكَ، قُلْتُ وَمَا هِيَ؟ قَالَا: شَاةٌ، فَعَمِدْتُ إِلَى شَاةٍ قَدْ عَلِمْتُ مَكَانَهَا، مُمْتَلِئَةً مخاضًا أَوْ مَحاضًا وَشَحْمًا، فَأَخْرَجْتُهَا إِلَيْهِمَا، فَقَالَا: هَذِهِ شَافِعٌ، وَقَدْ نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْ نَأْخُذَ شَافِعًا" , وَالشَّافِعُ الَّتِي فِي بَطْنِهَا وَلَدُهَا، قَالَ: فَقُلْتُ: فَأَيَّ شَيْءٍ تَأْخُذَانِ؟ قَالَا: عَنَاقًا أَوْ جَذَعَةً أَوْ ثَنِيَّةً، قَالَ: فَأَخْرَجَ لَهُمَا عَنَاقًا، قَالَ: فَقَالَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا، فَتَنَاوَلَاهَا، وَجَعَلَاهَا مَعَهُمَا عَلَى بَعِيرِهِمَا.
مسلم بن ثفنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کا سردار مقرر کر دیا اور انہیں لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا میرے والد صاحب نے مجھے کچھ لوگوں کے پاس بھیجا تاکہ میں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے لے آؤں میں گھر سے نکلا اور ایک انتہائی عمر رسیدہ بزرگ جن کا نام سعر تھا کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے والد صاحب نے مجھے آپ کے پاس بکریوں کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا ہے انہوں نے فرمایا: بھتیجے تم کس طرح زکوٰۃ وصول کرتے ہو میں نے کہا ہم چھانٹ کر بکری لیتے ہیں حتی کہ بعض اوقات بکری کے تھنوں کا بالشت کے اعتبار سے تناسب بھی معلوم کرتے ہیں انہوں نے فرمایا: بھتیجے میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں میں اپنی بکریوں کے ساتھ انہی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں تھا میرے پاس اونٹ پر دو آدمی آئے اور کہنے لگے کہ ہم دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ہیں آپ اپنی بکریوں کی زکوٰۃ ادا کیجیے میں نے ان سے پوچھا کہ مجھ پر کتنی زکوٰۃ فرض ہے انہوں نے جواب دیا ایک بکری یہ سن کر میں ایک بکری کی طرف بڑھا جس کی اہمیت کو میں ہی جانتا تھا وہ دودھ اور گوشت سے لبریز تھی میں نے وہ بکری نکال کر ان کے سامنے پیش کی وہ کہنے لگے کہ یہ بکری تو بچہ جنم دینے والی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسی بکری لینے سے منع فرمایا ہے میں نے پوچھا: پھر کون سی بکری لاؤں انہوں نے جواب دیا کہ چھ ماہ کا بچہ یا ایک سال کی بکری ہو چنانچہ میں نے ان کے سامنے ایک ایسی بکری لآ کر پیش کی جس کے یہاں ابھی تک کسی بچے کی پیدائش نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کی پیدائش بھی قریب ہی کے زمانے میں ہوئی تھی میں نے جب وہ بکری نکالی تو انہوں نے کہا یہ بکری ہمیں دیدو چنانچہ میں نے انہیں وہی بکری دیدی اور وہ اسے اپنے اونٹ پر بٹھا کر لے گئے۔