(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا سليمان يعني ابن قرم ، عن سماك ، عن جعيد ابن اخت صفوان بن امية، عن صفوان بن امية ، قال: كنت نائما في المسجد على خميصة لي، فسرقت فاخذنا السارق، فرفعناه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فامر بقطعه , فقلت: يا رسول الله، افي خميصة ثمن ثلاثين درهما؟! انا اهبها له او ابيعها له، قال:" فهلا كان قبل ان تاتيني به؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ قَرْمٍ ، عَنْ سِمَاك ، عَنْ جُعَيْد ابْنِ أُخْتِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: كُنْتُ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ عَلَى خَمِيصَةٍ لِي، فَسُرِقَتْ فَأَخَذْنَا السَّارِقَ، فَرَفَعْنَاهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفِي خَمِيصَةٍ ثَمَنُ ثَلَاثِينَ دِرْهَمًا؟! أَنَا أَهَبُهَا لَهُ أَوْ أَبِيعُهَا لَهُ، قَالَ:" فَهَلَّا كَانَ قَبْلَ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ؟".
سیدنا صفوان بن امیہ سے مروی ہے کہ میں مسجد نبوی میں سو رہا تھا کہ ایک چور آیا اور اس نے میرے سر کے نیچے سے کپڑا نکال لیا اور چلتا بنا میں نے اس کا پیچھا کیا اور اسے پکڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا اور عرض کیا: کہ اس شخص نے میرا کپڑا چرایا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا تیس درہم کی چادر کے بدلے میں اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا یہ میں اسے ہبہ کرتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہ صدقہ کر دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشاهده ، وهذا إسناد ضعيف لضعف سليمان بن قرم، وجهالة جعيد ابن أخت صفوان، واختلف فيه على سماك فى اسم جعيد