(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود الهاشمي ، انبانا عبد الرحمن يعني ابن ابي الزناد ، عن هشام ، عن عروة ، قال: اخبرني ابي الزبير رضي الله عنه انه لما كان يوم احد اقبلت امراة تسعى، حتى إذا كادت ان تشرف على القتلى، قال: فكره النبي صلى الله عليه وسلم ان تراهم، فقال:" المراة المراة" , قال الزبير رضي الله عنه: فتوسمت انها امي صفية، قال: فخرجت اسعى إليها، فادركتها قبل ان تنتهي إلى القتلى، قال: فلدمت في صدري، وكانت امراة جلدة، قالت: إليك، لا ارض لك , قال: فقلت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم عزم عليك , قال: فوقفت، واخرجت ثوبين معها، فقالت: هذان ثوبان , جئت بهما لاخي حمزة، فقد بلغني مقتله، فكفنوه فيهما , قال: فجئنا بالثوبين لنكفن فيهما حمزة، فإذا إلى جنبه رجل من الانصار قتيل، قد فعل به كما فعل بحمزة، قال: فوجدنا غضاضة وحياء ان نكفن حمزة في ثوبين، والانصاري لا كفن له، فقلنا لحمزة ثوب، وللانصاري ثوب، فقدرناهما فكان احدهما اكبر من الآخر، فاقرعنا بينهما، فكفنا كل واحد منهما في الثوب الذي طار له.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ أَقْبَلَتْ امْرَأَةٌ تَسْعَى، حَتَّى إِذَا كَادَتْ أَنْ تُشْرِفَ عَلَى الْقَتْلَى، قَالَ: فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَرَاهُمْ، فَقَالَ:" الْمَرْأَةَ الْمَرْأَةَ" , قَالَ الزُّبَيْرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَتَوَسَّمْتُ أَنَّهَا أُمِّي صَفِيَّةُ، قَالَ: فَخَرَجْتُ أَسْعَى إِلَيْهَا، فَأَدْرَكْتُهَا قَبْلَ أَنْ تَنْتَهِيَ إِلَى الْقَتْلَى، قَالَ: فَلَدَمَتْ فِي صَدْرِي، وَكَانَتْ امْرَأَةً جَلْدَةً، قَالَتْ: إِلَيْكَ، لَا أَرْضَ لَكَ , قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَزَمَ عَلَيْكِ , قَالَ: فَوَقَفَتْ، وَأَخْرَجَتْ ثَوْبَيْنِ مَعَهَا، فَقَالَتْ: هَذَانِ ثَوْبَانِ , جِئْتُ بِهِمَا لِأَخِي حَمْزَةَ، فَقَدْ بَلَغَنِي مَقْتَلُهُ، فَكَفِّنُوهُ فِيهِمَا , قَالَ: فَجِئْنَا بِالثَّوْبَيْنِ لِنُكَفِّنَ فِيهِمَا حَمْزَةَ، فَإِذَا إِلَى جَنْبِهِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ قَتِيلٌ، قَدْ فُعِلَ بِهِ كَمَا فُعِلَ بِحَمْزَةَ، قَالَ: فَوَجَدْنَا غَضَاضَةً وَحَيَاءً أَنْ نُكَفِّنَ حَمْزَةَ فِي ثَوْبَيْنِ، وَالْأَنْصَارِيُّ لَا كَفَنَ لَهُ، فَقُلْنَا لِحَمْزَةَ ثَوْبٌ، وَلِلْأَنْصَارِيِّ ثَوْبٌ، فَقَدَرْنَاهُمَا فَكَانَ أَحَدُهُمَا أَكْبَرَ مِنَ الْآخَرِ، فَأَقْرَعْنَا بَيْنَهُمَا، فَكَفَّنَّا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا فِي الثَّوْبِ الَّذِي طَارَ لَهُ.
سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن اختتام پر ایک عورت سامنے سے بڑی تیزی کے ساتھ آتی ہوئی دکھائی دی، قریب تھا کہ وہ شہداء کی لاشیں دیکھ لیتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ وہ خاتون انہیں دیکھ سکے، اس لئے فرمایا کہ ”اس عورت کو روکو، اس عورت کو روکو۔“ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ میری والدہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں، چنانچہ میں ان کی طرف دوڑتا ہوا گیا اور شہداء کی لاشوں تک ان کے پہنچنے سے قبل ہی میں نے انہیں جا لیا۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر میرے سینے پر دو ہتڑ مار کر مجھے پیچھے کو دھکیل دیا، وہ ایک مضبوط خاتون تھیں اور کہنے لگیں کہ پرے ہٹو، میں تم سے نہیں بولتی، میں نے عرض کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قسم دلائی ہے کہ ان لاشوں کو مت دیکھیں، یہ سنتے ہی وہ رک گئیں اور اپنے پاس موجود دو کپڑے نکال کر فرمایا: یہ دو کپڑے ہیں جو میں اپنے بھائی حمزہ کے لئے لائی ہوں، کیونکہ مجھے ان کی شہادت کی خبر مل چکی ہے، تم انہیں ان کپڑوں میں کفن دے دینا۔ جب ہم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو ان دو کپڑوں میں کفن دینے لگے تو دیکھا کہ ان کے پہلو میں ایک انصاری شہید ہوئے پڑے ہیں، ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا گیا تھا جو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا گیا تھا، ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوئی کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو دو کپڑوں میں کفن دے دیں اور اس انصاری کو کفن کا ایک کپڑا بھی میسر نہ ہو، اس لئے ہم نے یہ طے کیا کہ ایک کپڑے میں سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے میں اس انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کو کفن دیں گے، اندازہ کرنے پر ہمیں معلوم ہوا کہ ان دونوں حضرات میں سے ایک زیادہ لمبے قد کے تھے، ہم نے قرعہ اندازی کی اور جس کے نام جو کپڑا نکل آیا اسے اسی کپڑے میں کفن دے دیا۔