وعن عبد الله بن زيد بن عبد ربه قال: لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناقوس يعمل ليضرب به للناس لجمع الصلاة طاف بي وانا نائم رجل يحمل ناقوسا في يده فقلت يا عبد الله اتبيع الناقوس قال وما تصنع به فقلت ندعو به إلى الصلاة قال افلا ادلك على ما هو خير من ذلك فقلت له بلى قال فقال تقول الله اكبر إلى آخره وكذا الإقامة فلما اصبحت اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته بما رايت فقال: «إنها لرؤيا حق إن شاء الله فقم مع بلال فالق عليه ما رايت فليؤذن به فإنه اندى صوتا منك» فقمت مع بلال فجعلت القيه عليه ويؤذن به قال فسمع بذلك عمر بن الخطاب وهو في بيته فخرج يجر رداءه ويقول والذي بعثك بالحق لقد رايت مثل ما ارى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فلله الحمد» . رواه ابو داود والدارمي وابن ماجه إلا انه لم يذكر الإقامة. وقال الترمذي: هذا حديث صحيح لكنه لم يصرح قصة الناقوس وَعَن عبد الله بن زيد بن عبد ربه قَالَ: لَمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاقُوسِ يُعْمَلُ لِيُضْرَبَ بِهِ لِلنَّاسِ لِجَمْعِ الصَّلَاةِ طَافَ بِي وَأَنَا نَائِمٌ رَجُلٌ يَحْمِلُ نَاقُوسًا فِي يَدِهِ فَقُلْتُ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَتَبِيعُ النَّاقُوسَ قَالَ وَمَا تَصْنَعُ بِهِ فَقلت نَدْعُو بِهِ إِلَى الصَّلَاةِ قَالَ أَفَلَا أَدُلُّكَ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْ ذَلِكَ فَقُلْتُ لَهُ بَلَى قَالَ فَقَالَ تَقُولَ اللَّهُ أَكْبَرُ إِلَى آخِرِهِ وَكَذَا الْإِقَامَةُ فَلَمَّا أَصْبَحْتُ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا رَأَيْتُ فَقَالَ: «إِنَّهَا لَرُؤْيَا حَقٍّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَقُمْ مَعَ بِلَالٍ فَأَلْقِ عَلَيْهِ مَا رَأَيْتَ فَلْيُؤَذِّنْ بِهِ فَإِنَّهُ أَنْدَى صَوْتًا مِنْك» فَقُمْت مَعَ بِلَال فَجعلت ألقيه عَلَيْهِ وَيُؤَذِّنُ بِهِ قَالَ فَسَمِعَ بِذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ وَيَقُول وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَقَدْ رَأَيْتُ مِثْلَ مَا أَرَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلِلَّهِ الْحَمْدُ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ إِلَّا أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرِ الْإِقَامَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَكِنَّهُ لَمْ يُصَرح قصَّة الناقوس
عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کے لیے ناقوس بجانے کا حکم فرمایا تو میں نے خواب میں ایک شخص کو ہاتھ میں ناقوس اٹھائے ہوئے دیکھا، میں نے کہا: اللہ کے بندے! کیا تم ناقوس بیچتے ہو؟ اس نے کہا تم اسے کیا کرو گے؟ میں نے کہا: ہم اس کے ذریعے نماز کے لیے بلائیں گے، اس نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتاؤ، راوی بیان کرتے ہیں، اس نے کہا: تم اللہ اکبر سے آخر اذان تک کہو، اور اسی طرح اقامت، پس جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں اپنا خواب سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان شاءاللہ یہ سچا خواب ہے، آپ بلال کے ساتھ کھڑے ہوں اور آپ نے جو دیکھا ہے وہ بلال کو سکھا دو، وہ ان کلمات کے ساتھ اذان دے، کیونکہ اس کی آواز آپ سے زیادہ بلند ہے۔ “ چنانچہ میں بلال کے ساتھ کھڑا ہو کر انہیں اذان کے کلمات سکھاتا رہا اور وہ ان کے ساتھ اذان دیتے رہے، راوی بیان کرتے ہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں اذان کی آواز سنی تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے تشریف لائے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، جو کچھ انہیں دکھایا گیا ہے بالکل وہی کچھ میں نے دیکھا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا شکر ہے۔ “ حسن۔ ابوداؤد، دارمی، ابن ماجہ، البتہ انہوں نے اقامت کا ذکر نہیں کیا، اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے، لیکن انہوں نے واقعہ ناقوس کی صراحت نہیں کی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (499) والدارمي (268/1. 269 ح 1190. 1191) و ابن ماجه (706) والترمذي (189) [و صححه ابن خزيمة (371) و ابن حبان (287)]»