وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن موسى كان رجلا حييا ستيرا لا يرى من جلده شيء استحياء فآذاه من آذاه من بني إسرائيل فقالوا: ما تستر هذا التستر إلا من عيب بجلده: إما برص او ادرة وإن الله اراد ان يبرئه فخلا يوما وحده ليغتسل فوضع ثوبه على حجر ففر الحجر بثوبه فجمع موسى في إثره يقول: ثوبي يا حجر ثوبي يا حجر حتى انتهى إلى ملا من بني إسرائيل فراوه عريانا احسن ما خلق الله وقالوا: والله ما بموسى من باس واخذ ثوبه وطفق بالحجر ضربا فوالله إن بالحجر لندبا من اثر ضربه ثلاثا او اربعا او خمسا. متفق عليه وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مُوسَى كَانَ رَجُلًا حَيِيًّا سِتِّيرًا لَا يُرَى مِنْ جِلْدِهِ شَيْءٌ اسْتِحْيَاءً فَآذَاهُ مَنْ آذَاهُ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالُوا: مَا تَسَتَّرَ هَذَا التَّسَتُّرَ إِلَّا مِنْ عَيْبٍ بِجِلْدِهِ: إِمَّا بَرَصٌ أَوْ أُدْرَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ أَرَادَ أَنْ يُبَرِّئَهُ فَخَلَا يَوْمًا وَحده ليغتسل فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ فَفَرَّ الْحَجَرُ بِثَوْبِهِ فَجمع مُوسَى فِي إِثْرِهِ يَقُولُ: ثَوْبِي يَا حَجَرُ ثَوْبِي يَا حَجَرُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى مَلَأٍ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَرَأَوْهُ عُرْيَانًا أَحْسَنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ وَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا بِمُوسَى مِنْ بَأْسٍ وَأَخْذَ ثَوْبَهُ وَطَفِقَ بِالْحَجَرِ ضَرْبًا فَوَاللَّهِ إِنَّ بِالْحَجَرِ لَنَدَبًا مِنْ أَثَرِ ضَرْبِهِ ثَلَاثًا أَو أَرْبعا أَو خمْسا. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”موسی ؑ بڑے ہی شرم و حیا والے انسان تھے، ان کے حیا کی وجہ سے ان کی جلد سے کچھ بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا، بنی اسرائیل کے جن لوگوں نے آپ ؑ کو اذیت پہنچائی تھی وہ پہنچا کر رہے، انہوں نے کہا: یہ اپنی کسی جلدی بیماری کی وجہ سے اس قدر اپنا بدن چھپا کر رکھتے ہیں، یہ یا تو برص کے مریض ہیں یا ان کے خصیے (فوطے) پھول گئے ہیں، اللہ نے ارادہ فرمایا کہ وہ ان کو عیوب سے بے عیب ثابت کرے، ایک روز وہ اکیلے غسل کرنے کے لیے آئے تو اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیے، اور وہ پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ گیا، موسی ؑ بھی تیزی کے ساتھ اس کے پیچھے بھاگنے لگے اور کہنے لگے: پتھر! میرے کپڑے (واپس کر دو میں اور کچھ نہیں چاہتا) وہ (اس طرح کہتے ہوئے) بنی اسرائیل کی ایک جماعت تک پہنچ گئے، انہوں نے ان کو عریاں حالت میں دیکھ لیا کہ اللہ نے جو تخلیق فرمائی ہے وہ احسن ہے، اور انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! موسی ؑ میں کوئی نقص نہیں، اور انہوں نے اپنے کپڑے لیے اور پتھر کو مارنے لگے، اللہ کی قسم! ان کی مار کے، تین، چار یا پانچ نشان پتھر پر پڑ گئے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3404) و مسلم (156/ 2371)»