وعن اسماء بنت ابي بكر قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكر له سدرة المنتهى قال: «يسير الراكب في ظل الفنن منها مائة سنة او يستظل بظلها مائة راكب-شك الراوي-فيها فراش الذهب كان ثمرها القلال» رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وَعَن أَسمَاء بنت أبي بكر قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُكِرَ لَهُ سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى قَالَ: «يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّ الْفَنَنِ مِنْهَا مِائَةَ سَنَةٍ أَوْ يَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا مِائَةُ رَاكِبٍ-شَكَّ الرَّاوِي-فِيهَا فَرَاشُ الذَّهَبِ كَأَنَّ ثَمَرَهَا الْقِلَالُ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ سے سدرۃ المنتہی کا ذکر کیا گیا تو فرمایا: ”سوار اس کی شاخوں کے سائے میں سو سال چلتا رہے گا۔ “ یا فرمایا: ”اس کے سائے سے سو سوار سایہ حاصل کر سکیں گے۔ “ اس میں راوی کو شک ہوا ہے۔ “ اس پر پتنگے سونے کے ہوں گے، اور اس کا پھل بڑے مٹکوں کی طرح ہو گا۔ “ ترمذی، اور فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (2541) ٭ محمد بن إسحاق بن يسار مدلس و صرّح بالسماع عند ھناد بن السري في الزھد (98/1ح 115)»