عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: كنا في مجلس فطلع علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى راسه اثر ماء فقلنا: يا رسول الله نراك طيب النفس. قال: اجل. قال: ثم خاض القوم في ذكر الغنى فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا باس بالغنى لمن اتقى الله عز وجل والصحة لمن اتقى خير من الغنى وطيب النفس من النعيم» رواه احمد عَنْ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كُنَّا فِي مَجْلِسٍ فَطَلَعَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى رَأْسِهِ أَثَرُ مَاءٍ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَرَاكَ طَيِّبَ النَّفْسِ. قَالَ: أَجَلْ. قَالَ: ثُمَّ خَاضَ الْقَوْمُ فِي ذِكْرِ الْغِنَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنِ اتَّقَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَالصِّحَّةُ لِمَنِ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى وَطِيبُ النَّفس من النَّعيم» رَوَاهُ أَحْمد
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک مجلس میں تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے سر پر پانی (یعنی غسل) کے اثرات تھے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم آپ کو خوش طبع دیکھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، پھر لوگوں نے مال داری کے متعلق غور و خوض کرنا شروع کر دیا (کیا وہ جائز ہے یا ناجائز؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ عزوجل سے ڈرتا ہے اس کے لیے مال داری میں کوئی مضائقہ نہیں، تقویٰ والے شخص کے لیے صحت مال داری سے بہتر ہے، اور حقیقی خوشی نعمتوں میں سے ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أحمد (5/ 372 ح 23545) [و ابن ماجه (2141)]»