وعن انس قال: مر رجل بالنبي صلى الله عليه وسلم وعنده ناس. فقال رجل ممن عنده: إني لاحب هذا في الله. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «اعلمته؟» قال: لا. قال: «قم إليه فاعلمه» . فقام إليه فاعلمه فقال: احبك الذي احببتني له. قال: ثم رجع. فساله النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره بما قال. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «انت مع من احببت ولك ما احتسبت» رواه البيهقي في «شعب الإيمان» . وفي رواية الترمذي: «المرء مع من احب وله ما اكتسب» وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نَاسٌ. فَقَالَ رَجُلٌ ممَّنْ عِنْده: إِني لأحب هَذَا فِي اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْلَمْتَهُ؟» قَالَ: لَا. قَالَ: «قُمْ إِلَيْهِ فَأَعْلِمْهُ» . فَقَامَ إِلَيْهِ فَأَعْلَمَهُ فَقَالَ: أَحَبَّكَ الَّذِي أَحْبَبْتَنِي لَهُ. قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ. فَسَأَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكَ مَا احْتَسَبْتَ» رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» . وَفِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيِّ: «الْمَرْءُ مَعَ من أحبَّ ولَه مَا اكْتسب»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرا جبکہ کچھ لوگ آپ کے پاس تھے، ان لوگوں میں سے کسی نے کہا: میں اس شخص سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اسے بتایا ہے؟“ اس نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی طرف جاؤ اور اسے بتاؤ۔ “ چنانچہ وہ اس شخص کے پاس گیا اور اسے بتایا (کہ میں تجھ سے اللہ کی خاطر محبت کرتا ہوں) تو اس نے کہا: جس ذات کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو وہ ذات تجھ سے محبت کرے۔ راوی بیان کرتے ہیں، پھر وہ آدمی واپس آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے دریافت کیا تو اس نے آپ کو اس کے جواب سے آگاہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کے ساتھ ہی ہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو، اور تم نے جو ثواب چاہا وہ تمہیں ملے گا۔ “ بیہقی فی شعب الایمان۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے: ”آدمی جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ ہو گا، اور جو اس نے کیا اس کا وہ صلہ پائے گا۔ “ سندہ ضعیف، رواہ البیھقی فی شعب الایمان و الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه البيھقي في شعب الإيمان (9011) و الترمذي (2386 وقال: حسن غريب) ٭ الحسن البصري عنعن و حديث المرء مع من أحب صحيح متواتر دون الزيادة و حديث أبي داود (5125) يغني عنه.»