عن سمرة بن جندب قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مما يكثر ان يقول لاصحابه: «هل راى احد منكم من رؤيا؟» فيقص عليه من شاء الله ان يقص وإنه قال لنا ذات غداة: إنه اتاني الليلة آتيان وإنهما ابتعثاني وإنهما قالا لي: انطلق وإني انطلقت معهما. وذكر مثل الحديث المذكور في الفصل الاول بطوله وفيه زيادة ليست في الحديث المذكور وهي قوله: فاتينا على روضة معتمة فيها من كل نور الربيع وإذا بين ظهري الروضة رجل طويل لا اكاد ارى راسه طولا في السماء وإذا حول الرجل من اكثر ولدان رايتهم قط قلت لهما: ما هذا ما هؤلاء؟ قال: قالا لي: انطلق فانطلقنا فانتهينا إلى روضة عظيمة لم ار روضة قط اعظم منها ولا احسن. قال: قالا لي: ارق فيها. قال: «فارتقينا فيها فانتهينا إلى مدينة مبنية بلبن ذهب ولبن فضة فاتينا باب المدينة فاستفتحنا ففتح لنا فدخلناها فتلقانا فيها رجال شطر من خلقهم كاحسن ما انت راء وشطر منهم كاقبح ما انت راء» . قال: قالا لهم: اذهبوا فقعوا في ذلك النهر قال: «وإذا نهر معترض يجري كان ماءه المحض في البياض فذهبوا فوقعوا فيه ثم رجعوا إلينا قد ذهب ذلك السوء عنهم فصاروا في احسن صورة» وذكر في تفسير هذه الزيادة: «واما الرجل الطويل الذي في الروضة فإنه إبراهيم واما الولدان الذين حوله فكل مولود مات على الفطرة» قال: فقال بعض المسلمين: يا رسول الله واولاد المشركين؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «واولاد المشركين واما القوم الذين كانوا شطر منهم حسن وشطر منهم حسن وشطر منهم قبيح فإنهم قوم قد خلطوا عملا صالحا وآخر سيئا تجاوز الله عنهم» . رواه البخاري عَن سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَكْثُرُ أَنْ يَقُولَ لِأَصْحَابِهِ: «هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْ رُؤْيَا؟» فَيَقُصُّ عَلَيْهِ مَنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُصَّ وَإِنَّهُ قَالَ لَنَا ذَاتَ غَدَاةٍ: إِنَّهُ أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ وَإِنَّهُمَا ابْتَعَثَانِي وَإِنَّهُمَا قَالَا لِي: انْطَلِقْ وَإِنِّي انْطَلَقْتُ مَعَهُمَا. وَذَكَرَ مِثْلَ الْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ فِي الْفَصْلِ الْأَوَّلِ بِطُولِهِ وَفِيهِ زِيَادَةٌ لَيْسَتْ فِي الْحَدِيثِ الْمَذْكُورِ وَهِيَ قَوْلُهُ: فَأَتَيْنَا عَلَى رَوْضَةٍ مُعْتِمَةٍ فِيهَا مِنْ كُلِّ نَوْرِ الرَّبِيعِ وَإِذَا بَيْنَ ظَهْرَيِ الرَّوْضَةِ رَجُلٌ طَوِيلٌ لَا أَكَادُ أَرَى رَأْسَهُ طُولًا فِي السَّمَاءِ وَإِذَا حَوْلَ الرَّجُلِ مِنْ أَكْثَرِ وِلْدَانٍ رَأَيْتُهُمْ قَطُّ قُلْتُ لَهُمَا: مَا هَذَا مَا هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: قَالَا لِيَ: انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا فَانْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ عَظِيمَةٍ لَمْ أَرَ رَوْضَةً قَطُّ أَعْظَمَ مِنْهَا وَلَا أَحْسَنَ. قَالَ: قَالَا لِيَ: ارْقَ فِيهَا. قَالَ: «فَارْتَقَيْنَا فِيهَا فَانْتَهَيْنَا إِلَى مَدِينَةٍ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ وَلَبِنِ فِضَّةٍ فَأَتَيْنَا بَابَ الْمَدِينَةِ فَاسْتَفْتَحْنَا فَفُتِحَ لَنَا فَدَخَلْنَاهَا فَتَلَقَّانَا فِيهَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ وَشَطْرٌ مِنْهُمْ كَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاءٍ» . قَالَ: قَالَا لَهُمُ: اذْهَبُوا فَقَعُوا فِي ذَلِكَ النَّهَرِ قَالَ: «وَإِذَا نَهَرٌ مُعْتَرِضٌ يَجْرِي كَأَنَّ مَاءَهُ الْمَحْضُ فِي الْبَيَاضِ فَذَهَبُوا فَوَقَعُوا فِيهِ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيْنَا قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ فَصَارُوا فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ» وَذَكَرَ فِي تَفْسِير هَذِه الزِّيَادَة: «وَأما الرجلُ الطويلُ الَّذِي فِي الرَّوْضَةِ فَإِنَّهُ إِبْرَاهِيمُ وَأَمَّا الْوِلْدَانُ الَّذِينَ حَوْلَهُ فَكُلُّ مَوْلُودٍ مَاتَ عَلَى الْفِطْرَةِ» قَالَ: فَقَالَ بَعْضُ الْمُسْلِمِينَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَوْلَادُ الْمُشْرِكِينَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأَوْلَادُ الْمُشْرِكِينَ وَأَمَّا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَانُوا شطرٌ مِنْهُم حسن وَشطر مِنْهُمْ حَسَنٌ وَشَطْرٌ مِنْهُمْ قَبِيحٌ فَإِنَّهُمْ قَوْمٌ قَدْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا تَجَاوَزَ الله عَنْهُم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ سے اکثر یوں فرمایا کرتے تھے: ”کیا تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟“ وہ آپ سے، جو اللہ چاہتا، بیان کرتا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز ہمیں فرمایا: ”دو آنے والے میرے پاس آئے انہوں نے مجھے اٹھایا اور انہوں نے مجھے کہا: چلو، اور میں ان کے ساتھ چلا۔ “ اور پھر فصل اول میں مذکور حدیث مکمل طور پر بیان کی، اور اِس میں اضافہ ہے جو کہ حدیث مذکور میں نہیں، اور وہ یہ ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہم ایک انتہائی سر سبز باغ میں آئے، اس میں موسم بہار کے تمام پھول، اور باغ کے وسط میں ایک طویل آدمی تھا اور اس کے درازئ قد کی وجہ سے میں اس کا سر نہیں دیکھ سکتا تھا، جبکہ اس آدمی کے اردگرد بہت سے بچے ہیں، جنہیں میں نے (اتنی کثرت میں پہلے) ہرگز نہیں دیکھا، میں نے ان دونوں آدمیوں سے کہا: یہ کون ہیں؟ آپ فرماتے ہیں، انہوں نے مجھے کہا: (آگے) چلیں! ہم چلے اور ایک بڑے باغ کے پاس پہنچے، میں نے اس ے بڑا اور اس سے زیادہ بہتر باغ کبھی نہیں دیکھا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: ”انہوں نے مجھے کہا: اس میں اوپر چڑھو۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہم اس میں چڑھے اور ایک شہر میں پہنچے جس کی تعمیر اس طرح ہوئی تھی کہ اس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک اینٹ چاندی کی تھی، ہم شہر کے دروازے پر پہنچے اور دروازہ کھولنے کے لیے کہا، اور وہ ہمارے لیے کھول دیا گیا تو ہم اس میں داخل ہو گئے، ہم اس میں کچھ آدمیوں سے ملے ان کا آدھا دھڑ اتنا خوبصورت تھا کہ تم نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا اور ان کا آدھا دھڑ اس قدر قبیح تھا کہ تم نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا، ان دونوں نے انہیں کہا: جاؤ اور اس نہر میں گر جاؤ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہاں ایک چوڑی نہر جاری تھی گویا اس کا پانی خالص سفید ہے، وہ گئے اور اس میں گر گئے، پھر ہماری طرف واپس آئے تو ان کی وہ خرابی ختم ہو چکی تھی اور وہ خوبصورت بن گئے تھے۔ “ اور حدیث کے ان زائد الفاظ میں فرمایا: ”وہاں وہ طویل آدمی جو باغ میں تھا وہ ابراہیم ؑ تھے، اور وہ بچے جو ان کے اردگرد تھے، یہ وہ بچے تھے جو دین فطرت پر فوت ہوئے تھے۔ “ راوی بیان کرتے ہیں: بعض مسلمانوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مشرکوں کے بچے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مشرکوں کے بچے بھی، اور لوگ جن کا آدھا دھڑ اچھا اور آدھا دھڑ قبیح تھا تو یہ لوگ وہ تھے جنہوں نے اچھے عمل بھی کیے تھے اور برے عمل بھی، اللہ نے ان سے درگزر فرمایا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (7047)»