وعن يعلى بن امية قال: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم جيش العسرة وكان لي اجير فقاتل إنسانا فعض احدهما الآخر فانتزع المعضوض يده من في العاض فاندر ثنيته فسقطت فانطلق إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاهدر ثنيته وقال: «ايدع يده في فيك تقضمها كالفحل» وَعَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ وَكَانَ لِي أَجِيرٌ فقاتلَ إِنساناً فعض أَحدهمَا الْآخَرِ فَانْتَزَعَ الْمَعْضُوضُ يَدَهُ مِنْ فِي الْعَاضِّ فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ فَسَقَطَتْ فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ وَقَالَ: «أَيَدَعُ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضِمُهَا كَالْفَحْلِ»
یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شرکت کی، میرا ایک نوکر تھا اس کا کسی شخص سے جھگڑا ہو گیا تو ان دونوں میں سے کسی ایک نے دوسرے کا ہاتھ (دانتوں سے) چبا ڈالا تو جس کا ہاتھ تھا اس نے اپنے ہاتھ کو اس کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے کے دانت گرا دیے، وہ (شکایت لے کر) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے دانتوں کو رائیگاں قرار دیا اور اس کا بدلہ نہ دلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں رہنے دیتا تاکہ تم اونٹ کی طرح اسے چبا ڈالتے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (2265) و مسلم (1674/23)»