وعن ابن مسعود قال: راى رسول الله صلى الله عليه وسلم امراة فاعجبته فاتى سودة وهي تصنع طيبا وعندها نساء فاخلينه فقضى حاجته ثم قال: «ايما رجل راى امراة تعجبه فليقم إلى اهله فإن معها مثل الذي معها» . رواه الدارمي وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً فَأَعْجَبَتْهُ فَأَتَى سَوْدَةَ وَهِيَ تَصْنَعُ طِيبًا وَعِنْدَهَا نِسَاءٌ فَأَخْلَيْنَهُ فَقَضَى حَاجَتَهُ ثُمَّ قَالَ: «أَيُّمَا رَجُلٍ رَأَى امْرَأَةً تُعْجِبُهُ فَلْيَقُمْ إِلَى أَهْلِهِ فَإِنَّ مَعَهَا مثل الَّذِي مَعهَا» . رَوَاهُ الدَّارمِيّ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی عورت کو دیکھا تو وہ آپ کو اچھی لگی، آپ سودہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے، وہ اس وقت خوشبو تیار کر رہی تھیں اور ان کے پاس کچھ عورتیں تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں علیحدہ کیا اور اپنی حاجت پوری کی پھر فرمایا: ”کوئی آدمی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے خوش لگے تو وہ آدمی اپنی اہلیہ کے پاس آئے کیونکہ اس کے پاس بھی وہی کچھ ہے جو اُس عورت کے پاس ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الدارمي (146/2 ح 2221، نسخة محققة: 2261) ٭ و أبو إسحاق عنعن و عبد الله بن حلام: لا يعرف، مجھول الحال و ثقه ابن حبان وحده و حديث مسلم (1403) يغني عنه و فيه ’’أتي زينب‘‘ بدل ’’سودة‘‘ و ھو الصحيح.»