مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر

مشكوة المصابيح
ایمان کا بیان
--. جنت میں داخلہ دوزخ سے نجات
حدیث نمبر: Q29
Save to word اعراب

حدیث نمبر: 29
Save to word اعراب
عن معاذ بن جبل قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فاصبحت يوما قريبا منه ونحن نسير فقلت يا رسول الله اخبرني بعمل يدخلني الجنة ويباعدني عن النار قال لقد سالتني عن عظيم وإنه ليسير على من يسره الله عليه تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت ثم قال الا ادلك على ابواب الخير الصوم جنة والصدقة تطفئ الخطيئة كما يطفئ الماء النار وصلاة الرجل من جوف الليل قال ثم تلا (تتجافى جنوبهم عن المضاجع) ‏‏‏‏حتى بلغ (يعملون) ‏‏‏‏ثم قال الا ادلك براس الامر كله وعموده وذروة سنامه قلت بلى يا رسول الله قال راس الامر الإسلام وعموده الصلاة وذروة سنامه الجهاد ثم قال الا اخبرك بملاك ذلك كله قلت بلى يا نبي الله فاخذ بلسانه فقال كف عليك هذا فقلت يا نبي الله وإنا لمؤاخذون بما نتكلم به فقال ثكلتك امك يا معاذ وهل يكب الناس في النار على وجوههم او على مناخرهم إلا حصائد السنتهم. رواه احمد والترمذي وابن ماجه ‏‏‏‏ عَن معَاذ بن جبل قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سفر فَأَصْبَحت يَوْمًا قَرِيبا مِنْهُ وَنحن نسير فَقلت يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُبَاعِدنِي عَن النَّار قَالَ لقد سَأَلتنِي عَن عَظِيمٍ وَإِنَّهُ لِيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ وَتَحُجَّ الْبَيْت ثُمَّ قَالَ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الْخَيْرِ الصَّوْمُ جُنَّةٌ وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الْخَطِيئَةُ كَمَا يُطْفِئُ المَاء النَّار وَصَلَاة الرجل من جَوف اللَّيْل قَالَ ثمَّ تَلا (تَتَجَافَى جنُوبهم عَن الْمضَاجِع) ‏‏‏‏حَتَّى بَلَغَ (يَعْمَلُونَ) ‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ أَلَا أَدُلُّكَ بِرَأْس الْأَمر كُله وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِمِلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ قُلْتُ بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ فَقَالَ كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نتكلم بِهِ فَقَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه ‏‏‏‏ 
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے دور کر دے، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی بات کے متعلق پوچھا ہے، لیکن وہ ایسے شخص کے لیے آسان ہے، جس پر اللہ تعالیٰ اسے آسان فرما دے، تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں ابواب خیر کے متعلق نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، اور رات کے اوقات میں آدمی کا نماز پڑھنا (گناہوں کو مٹا دیتا ہے)۔ پھر آپ نے (سورۃ السجدہ کی آیت) تلاوت فرمائی: ان کے پہلو بستروں سے دور رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ نے وہ عمل کیا کرتے تھے تک تلاوت مکمل فرمائی، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں دین کی بنیاد اس کے ستون اور اس کی چوٹی کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! ضرور بتائیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: دین کی بنیاد اسلام ہے، اس کا ستون نماز اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں ان سب سے بڑی چیز کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے نبی! ضرور بتائیں، آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا: اسے روک لو۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم اس سے جو کلام کرتے ہیں کیا اس پر ہمارا مؤاخذا ہو گا؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: معاذ! تیری ماں تجھے گم پائے۔ لوگوں کو ان کی زبانوں کی کاٹ ہی ان کے چہروں یا نتھنوں کے بل جہنم میں گرائے گی۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«حسن، رواه أحمد (5/ 231ح 22366) والترمذي (2616 وقال: ھذا حديث حسن صحيح) و ابن ماجه (3973) [وللحديث شواهد عند أحمد (236/5. 237، 248) وغيره وھو بھا حسن.]»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   جامع الترمذي2616معاذ بن جبلتعبد الله ولا تشرك به شيئا تقيم الصلاة تؤتي الزكاة تصوم رمضان تحج البيت
   سنن ابن ماجه3973معاذ بن جبلتعبد الله لا تشرك به شيئا تقيم الصلاة تؤتي الزكاة تصوم رمضان تحج البيت الصوم جنة الصدقة تطفئ الخطيئة كما يطفئ النار الماء صلاة الرجل من جوف الليل قرأ تتجافى جنوبهم عن المضاجع حتى بلغ جزاء بما كانوا يعملون
   مشكوة المصابيح29معاذ بن جبلتعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 29 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 29  
تحقیق الحدیث: حسن ہے۔
◈ اس حدیث کے راوی ابووائل شقیق بن سلمہ رحمہ اللہ (تابعی کبیر) سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت اٹھارہ سال کے نوجوان تھے۔ ابووائل مدلس نہیں ہیں، لہٰذا سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہے۔ بعض الناس کا اسے منقطع قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
◈ ابووائل تک سند حسن لذاتہ ہے۔
◈ قاری عاصم بن ابی النجود حسن الحدیث ہیں، جمہور محدثین کرام نے ان کی توثیق کی ہے۔
◈ عاصم بن ابی النجود پر بعض محدثین کی جرح جمہور کے مقابلے میں ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

راویان حدیث کی دو قسمیں ہیں:
➊ جن کی جرح و تعدیل میں کوئی اختلاف نہیں، اتفاق و اجماع ہے، مثلا سعید بن المسیب، سعید بن جبیر اور امام زہری وغیرہم بالاجماع ثقہ ہیں۔ محمد بن مروان السدی، ثویر بن ابی فاختہ اور حماد بن الجعد وغیرہم بالاجماع مجروح ہیں۔
➋ جن راویوں کی جرح و تعدیل میں محدثین کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ ایسے راویوں کے بارے میں عام و خاص اور جمع و تطبیق کی عدم موجودگی میں ہمیشہ جمہور محدثین کو ہی ترجیح ہوتی ہے۔

فقہ الحدیث
➊ اس حدیث میں دین اسلام کے اہم ارکان اور افعال خیر کا ذکر ہے۔
➋ زبان کی حفاظت اہم ترین مسئلہ ہے۔
❀ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«من يضمن لي ما بين لحيه و ما بين رجليه، أضمن له الجنة»
جو شخص مجھے زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے، میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ [صحيح البخاري: 6474 وأضواء المصابيح: 4812]
❀ ایک روایت میں آیا ہے:
«أن العبد ليتكلم بالكمة من رضوان الله، لا يلقي لها بالا، يهوي بهافي جهنم»
بندہ (اپنے رب) اللہ کی خوشنودی کی ایسی بات کہہ دیتا ہے، جس کا اسے خیال بھی نہیں ہوتا تو اللہ اس کے درجے (بہت) بلند کر دیتا ہے، اور بندہ (اپنے رب) اللہ کی ناراضی کی بات کہہ دیتا ہے جس کا اسے خیال بھی نہیں ہوتا تو اسے اس کی وجہ سے جہنم میں گرایا جائے گا۔ [صحيح البخاري: 6474، 6475 و صحيح مسلم: 2988/50 وأضواءالمصابيح: 4813]
➌ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے بہت زیادہ فضائل ہیں۔ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یمن کی طرف معلم بنا کر بھیجا تھا۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رہا عالم کی غلطی کا مسئلہ تو (سنو) اگر وہ سیدھے راستے پر بھی (جا رہا) ہو تو اپنے دین میں اس کی تقلید نہ کرو۔ [كتاب الزهد للامام وكيع 300/1 ح 71، وسنده حسن، الحديث حضرو: 9ص44]
↰ معلوم ہوا کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ لوگوں کو تقلید سے منع کرتے اور کتاب و سنت کی پیروی کا حکم دیتے تھے، لہٰذا تقلید کرنے والے لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں۔
➍ نماز دین کا ستون ہے اور جہاد اس کی کوہان ہے۔ یاد رہے کہ کتاب و سنت کی دعوت دینا اور اہل باطل کا رد کرنا بہت بڑا جہاد ہے۔ «والحمد لله»
➎ اللہ کا خوف اور جنت کی طمع و حصول کا خیال رکھتے ہوئے عبادت کرنا بالکل صحیح ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 29   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3973  
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔`
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ایک دن میں صبح کو آپ سے قریب ہوا، اور ہم چل رہے تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے، اور جہنم سے دور رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے، اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان کر دے، تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو، پھر آپ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3973]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سب نیکیوں کا مقصد اور گناہوں سے بچنے کی ہر کوشش کا مقصد جنت کا حصول اور جہنم سے نجات ہے اس لیے یہ بہت عظیم مسئلہ ہے۔

(2)
نیکی اللہ کی توفیق ہی سے ہوتی ہے اور گناہ سے بچاؤ اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔

(3)
اسلام کے پانچوں ارکان پر کماحقہ عمل کرنے سے جنت ملتی ہےاور جہنم سے نجات ہوتی ہے۔

(4)
روزہ صدقہ اور تہجد نیکی کے دروازے ہیں۔
ان میں سے ہر ایک عمل بہت سی نیکیوں میں معاون بنتا ہے لہذا نفلی روزے، نفلی صدقات اور تہجد میں سے جو عمل بھی آسانی ہوسکے اسے زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔

(5)
نفلی روزے گناہوں سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہیں۔

(6)
صدقے سے گناہ معاف ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں جنت حاصل ہوتی ہے۔

(7)
نماز تہجد رات کے کسی بھی حصے میں ادا کی جاسکتی ہے تاہم آدھی رات کے بعد خصوصا تہائی رات باقی رہنے پر ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔

(8)
زبان کی حفاظت ایک اہم عمل ہے جس کا بڑی نیکیوں سے گہرا تعلق ہے۔
روزے کا فائدہ تب ہی حاصل ہوتا ہے جب جھوٹ چغلی غیبت اور گالی گلوچ وغیرہ سے اجتناب کیا جائے۔
صدقے کا ثواب تبھی ملتا ہے جب احسان نہ جتلایا جائے اور نیکی کا اعلان کرکے ریاکاری کا ارتکاب نہ کیا جائے۔
تہجد میں اللہ کا ذکر، دعا اور تلاوت زبان کے عمل ہیں۔

(9)
زبان کے گناہوں کو معمولی سمجھ لیا جاتا ہے لہٰذا توبہ کی طرف توجہ نہیں ہوتی اور گناہ اتنے زیادہ جمع ہوجاتے ہیں کہ انسان جہنم کا مستحق ہوجاتا ہےکہ انسان جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے۔

(10)
دین کا سر کلمہ توحید کا اقرار ہے جس کے ذریعے انسان اسلام میں داخل ہوتا ہے۔
توحید کے بغیر اسلام کی حیثیت وہی رہ جاتی ہے جو سر کاٹنے کے بعد انسان کی رہتی ہے۔

(11)
اسلام کا ستون نماز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3973   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2616  
´نماز کے تقدس و فضیلت کا بیان۔`
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ایک دن صبح کے وقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہوا، ہم سب چل رہے تھے، میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے، اور جہنم سے دور رکھے؟ آپ نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے۔ اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ آسان کر دے۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو۔‏‏‏‏ پھر آپ نے فرمایا: کیا م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2616]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں،
اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں،
اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے،
وہ خرچ کرتے ہیں،
کوئی نفس نہیں چاہتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لیے پوشیدہ کر رکھی ہے،
جو کچھ کرتے تھے یہ اس کا بدلہ ہے۔
(السجدہ: 16-17)
2؎:
یہاں اسلام سے مراد کلمۂ شہادتین کا اقرار اور اس کے تقاضے کو پورا کرنا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2616   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.