وعن ابي الدرداء قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فشخص ببصره إلى السماء ثم قال: «هذا اوان يختلس فيه العلم من الناس حتى لا يقدروا منه على شيء» . رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ: «هَذَا أَوَانٌ يُخْتَلَسُ فِيهِ الْعِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ على شَيْء» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، تو آپ نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر فرمایا: ”یہ وہ وقت ہے جس میں لوگوں سے علم سلب کر لیا جائے گا حتیٰ کہ وہ اس سے کسی چیز پر بھی قدرت نہیں رکھیں گے۔ “اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (2653 وقال: حديث حسن غريب.) [و صححه الحاکم (99/1) ووافقه الذهبي.]»
هذا أوان يختلس العلم من الناس حتى لا يقدروا منه على شيء قال زياد بن لبيد الأنصاري كيف يختلس منا وقد قرأنا القرآن فوالله لنقرأنه ولنقرئنه نساءنا وأبناءنا قال إن كنت لأعدك من فقهاء أهل المدينة هذه التوراة والإنجيل عند اليهود والنصارى فماذا تغني عنهم
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 245
تحقيق الحديث: اس کی سند حسن ہے۔ اسے حاکم [1؍99 ح338] اور ذہبی دونوں نے صحیح قرار دیا اور اس کی دوسری سند مسند احمد [6؍26۔ 27] میں ہے، جسے ابن حبان [115] حاکم [1؍98۔ 99 ح337] اور ذہبی تینوں نے صحیح قرار دیا اور اس کی سند حسن ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور وحی کے اختتام کی طرف اشارہ ہے۔ ➋ امت کے بعض حصے میں بدعات اور گمراہیاں پیدا ہوں گی، جن کے پھیلنے کا اصل سبب عدم علم اور جہالت ہو گی۔ «أعاذنا الله منها» ➌ قیامت سے پہلے جہالت کا دور دورہ ہو گا۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2653
´علم کے ختم ہو جانے کا بیان۔` ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اچانک آپ نے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیں، پھر فرمایا: ”ایسا وقت (آ گیا) ہے کہ جس میں لوگوں کے سینوں سے علم اچک لیا جائے گا۔ یہاں تک کہ لوگوں کے پاس کچھ بھی علم نہیں ہو گا، زیاد بن لبید انصاری نے کہا: (اللہ کے رسول!) علم ہم سے کس طرح چھین لیا جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہوں گے۔ قسم اللہ کی! ہم ضرور اسے پڑھیں گے اور ہم ضرور اپنی عورتوں کو اسے پڑھائیں گے اور اپنے بچوں کو سکھائیں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اے زیاد تمہاری ماں تمہیں کھو دے! میں تو تمہیں اہل مدینہ کے فقہاء می۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2653]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی ان کتابوں نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا؟ جس طرح یہود و نصاریٰ تورات و انجیل کو پا کر اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے، قرب قیامت میں یہی حال تم مسلمانوں کا بھی ہو گا، کیوں کہ تمہارے اچھے علماء ختم ہو جائیں گے، اور قرآن تمہارے پاس ہو گا، پھر بھی تم اس کے فیض سے محروم رہو گے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2653