وعن ابي قتادة انه كان يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة فقال: «مستريح او مستراح منه» فقالوا: يا رسول الله ما المستريح والمستراح منه؟ فقال: «العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا واذاها إلى رحمة الله والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب» وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ فَقَالَ: «مُسْتَرِيحٌ أَوْ مُسْتَرَاحٌ مِنْهُ» فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا المستريح والمستراح مِنْهُ؟ فَقَالَ: «الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يستريح مِنْهُ الْعباد والبلاد وَالشَّجر وَالدَّوَاب»
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ حدیث بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ راحت پا گیا یا دوسرے اس سے راحت پا گئے۔ “ صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! یہ راحت پا گیا یا دوسرے اس سے راحت پا گئے اس سے کیا مراد ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”بندہ مومن دنیا کی مشکلات اور تکلیفوں سے راحت پا کر اللہ کی رحمت کی طرف جاتا ہے جبکہ فاجر شخص سے عبادوبلاد اور درخت و حیوانات راحت پا جاتے ہیں۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6512) و مسلم (950/61)»