وعن يعلى بن امية قال: قلت لعمر بن الخطاب: إنما قال الله تعالى (ان تقصروا من الصلاة إن خفتم ان يفتنكم الذين كفروا) فقد امن الناس. قال عمر: عجبت مما عجبت منه فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال: «صدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته» رواه مسلم وَعَن يعلى بن أُميَّة قَالَ: قلت لعمر بن الْخطاب: إِنَّمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى (أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا) فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ. قَالَ عُمَرُ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ: «صَدَقَةٌ تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ فَاقْبَلُوا صدقته» رَوَاهُ مُسلم
یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا: ”(انتقصروا،،،، الذین کفروا) اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں کسی مصیبت میں ڈال دیں گے تو تم نماز میں کچھ کمی کر لو۔ “ اب تو لوگ پر امن ہیں (کسی قسم کا کوئی اندیشہ نہیں)، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جیسے آپ کو تعجب ہوا ہے ویسے مجھے بھی تعجب ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: ”ایک قسم کا صدقہ ہے جو اللہ نے تم پر کیا ہے، تم اس کی طرف سے صدقہ قبول کرو۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (686/4)»