وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عجب ربنا من رجلين رجل ثار عن وطائه ولحافه من بين حبه واهله إلى صلاته فيقول الله لملائكته: انظروا إلى عبدي ثار عن فراشه ووطائه من بين حبه واهله إلى صلاته رغبة فيما عندي وشفقا مما عندي ورجل غزا في سبيل الله فانهزم مع اصحابه فعلم ما عليه في الانهزام وما له في الرجوع فرجع حتى هريق دمه فيقول الله لملائكته: انظروا إلى عبدي رجع رغبة فيما عندي وشفقا مما عندي حتى هريق دمه. رواه في شرح السنة وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَجِبَ رَبُّنَا مِنْ رَجُلَيْنِ رَجُلٌ ثَارَ عَنْ وِطَائِهِ وَلِحَافِهِ مِنْ بَيْنِ حِبِّهِ وَأَهْلِهِ إِلَى صَلَاتِهِ فَيَقُولُ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي ثَارَ عَنْ فِرَاشِهِ وَوِطَائِهِ مِنْ بَيْنِ حِبِّهِ وَأَهْلِهِ إِلَى صَلَاتِهِ رَغْبَةً فِيمَا عِنْدِي وَشَفَقًا مِمَّا عِنْدِي وَرَجُلٌ غَزَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَانْهَزَمَ مَعَ أَصْحَابِهِ فَعَلِمَ مَا عَلَيْهِ فِي الِانْهِزَامِ وَمَا لَهُ فِي الرُّجُوعِ فَرَجَعَ حَتَّى هُرِيقَ دَمُهُ فَيَقُولُ اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ: انْظُرُوا إِلَى عَبْدِي رَجَعَ رَغْبَةً فِيمَا عِنْدِي وَشَفَقًا مِمَّا عِنْدِي حَتَّى هُرِيقَ دَمُهُ. رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا رب دو آدمیوں پر خوش ہوتا ہے، ایک وہ شخص جو اپنے نرم و گرم بستر اور اپنے چہیتوں اور اہل و عیال میں سے اٹھ کر نماز پڑھتا ہے۔ اللہ فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے اس بندے کو دیکھو کہ وہ میرے ہاں جو اجر و ثواب ہے اس کی رغبت اور میرے عذاب کے خوف کی وجہ سے اپنے نرم و گرم بستر اور اپنے چہیتوں اور اہل و عیال سے الگ ہو کر نماز کے لیے اٹھا ہے، اور ایک وہ آدمی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت میدان جنگ سے پیچھے ہٹ جاتا ہے، لیکن پھر یہ جان کر کہ پیچھے ہٹنے پر اسے کیا گناہ ملے گا اور پیش قدمی میں اسے کتنا ثواب ملے گا، تو وہ پلٹ کر آتا ہے حتیٰ کہ اسے شہید کر دیا جاتا ہے تو اللہ فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے اس بندے کو دیکھو کہ وہ مجھ سے ملنے والے اجر و ثواب کی رغبت اور میرے عذاب کے خوف کی وجہ سے پلٹ کر آیا حتیٰ کہ اسے شہید کر دیا گیا۔ “ حسن، رواہ فی شرح السنہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه البغوي في شرح السنة (4/ 42، 43 ح 930) [و أحمد 1/ 416 و صححه ابن حبان (الموارد: 643) والقسم الثاني منه في سنن أبي داود (2536) و سنده حسن.]»