وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" اخذ الله الميثاق من ظهر آدم بنعمان يعني عرفة فاخرج من صلبه كل ذرية ذراها فنثرهم بين يديه كالذر ثم كلمهم قبلا قال: (الست بربكم قالوا بلى شهدنا ان تقولوا يوم القيامة إنا كنا عن هذا غافلين او تقولوا إنما اشرك آباؤنا من قبل وكنا ذرية من بعدهم افتهلكنا بما فعل المبطلون) رواه احمد وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَخذ الله الْمِيثَاق من ظهر آدم بنعمان يَعْنِي عَرَفَة فَأخْرج من صلبه كل ذُرِّيَّة ذَرَاهَا فَنَثَرَهُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ كَالذَّرِّ ثُمَّ كَلَّمَهُمْ قِبَلًا قَالَ: (أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غافلين أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِنْ بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ المبطلون) رَوَاهُ أَحْمد
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے عرفہ کے نزدیک مقام نعمان پر اولاد آدم سے عہد لینے کا ارادہ فرمایا تو ان کی صلب سے (ان کی) تمام اولاد کو ”جسے پیدا کرنا تھا“ نکالا تو انہیں ان کے سامنے بکھیر دیا، جیسے چیونٹیاں ہوں، پھر ان سے براہ راست خطاب کیا تو فرمایا: ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں۔ ہم اس پر گواہ ہیں (یہ اقرار اس لیے لیا گیا) کہ کہیں قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہم تو اس حقیقت سے محض بے خبر تھے، یا یوں کہو کہ شرک تو ہمارے آباء نے کیا تھا، ہم تو ان کی اولاد ہیں جو ان کے بعد آئے، کیا تو ہمیں ان غلط کاروں کے کاموں پر ہلاک کر دے گا۔ “ اس حدیث کو احمد نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده حسن، رواه أحمد (1/ 272 ح 2455) [والنسائي في الکبري (6/ 347 ح 11191) و صححه الحاکم (1/ 27، 2/ 544) ووافقه الذهبي.] ٭ و للحديث شواهد منھا ما رواه الطبري في تفسيره (9/ 75، 76) بسند صحيح عن ابن عباس موقوفًا وله حکم المرفوع.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 121
تحقیق الحدیث: اس حدیث کی سند حسن لذاتہ ہے۔ کلثوم بن جبر صحیح مسلم کے راوی اور جمہور کے نزدیک موثق ہیں، لہٰذاحسن الحدیث ہیں، جریر بن حازم کو حافظ ابن حجر نے مدلسین کے طبقہ اولیٰ میں ذکر کیا ہے لیکن قولِ راجح میں وہ مدلس نہیں بلکہ تدلیس سے بری ہیں۔ دیکھئے میری کتاب الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین [ص21] ان پر تدلیس کا الزام یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی نے لگایا تھا اور یہ یحییٰ الحمانی بذات خود سخت ضعیف بلکہ ساقط العدالت راوی ہے، لہٰذا اس کی جرح مردود ہے۔ اس حدیث کو امام احمد کے علاوہ ابن ابی عاصم [السنة: 202] نسائی [السنن الكبري: 11191، وقال: وكلثوم هذا ليس بالقوي و حديثه ليس بالمحفوظ] حاکم [المستدرك 1؍27، 2؍544] اور بیہقی [الاسماء والصفات ص326، 327] وغیرہم نے بیان کررکھا ہے۔ حاکم اور ذہبی دونوں نے اسے صحیح کہا ہے۔ اس روایت پر امام نسائی کی جرح صحیح نہیں ہے اور قولِ راجح میں یہ حدیث موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح سے صحیح و حسن ہے۔
فقہ الحدیث: ➊ یہ حدیث سورۃ الاعراف کی آیت (172-173) کی تفسیر ہے۔ ➋ موقوف روایت تفسیر ابن جریر الطبری [75/9] میں صحیح سند کے ساتھ مذکور ہے ➌ اسلام دین فطرت ہے۔