الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زہد اور رقت انگیز باتیں
The Book of Zuhd and Softening of Hearts
8. باب النَّهْيِ عَنْ هَتْكِ الإِنْسَانِ سِتْرَ نَفْسِهِ:
8. باب: انسان کو اپنا پردہ کھولنا منع ہے۔
Chapter: The Prohibition Against Disclosing One's Own Sins
حدیث نمبر: 7485
Save to word اعراب
حدثني زهير بن حرب ، ومحمد بن حاتم ، وعبد بن حميد ، قال وعبد بن حميد: حدثني، وقال الآخران: حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، قال: قال سالم ، سمعت ابا هريرة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " كل امتي معافاة إلا المجاهرين، وإن من الإجهار ان يعمل العبد بالليل عملا، ثم يصبح قد ستره ربه، فيقول يا فلان: قد عملت البارحة كذا وكذا، وقد بات يستره ربه، فيبيت يستره ربه، ويصبح يكشف ستر الله عنه "، قال زهير: وإن من الهجار.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ وَعَبْدُ بْنُ حميدٍ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: قَالَ سَالِمٌ ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " كُلُّ أُمَّتِي مُعَافَاةٌ إِلَّا الْمُجَاهِرِينَ، وَإِنَّ مِنَ الْإِجْهَارِ أَنْ يَعْمَلَ الْعَبْدُ بِاللَّيْلِ عَمَلًا، ثُمَّ يُصْبِحُ قَدْ سَتَرَهُ رَبُّهُ، فَيَقُولُ يَا فُلَانُ: قَدْ عَمِلْتُ الْبَارِحَةَ كَذَا وَكَذَا، وَقَدْ بَاتَ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، فَيَبِيتُ يَسْتُرُهُ رَبُّهُ، وَيُصْبِحُ يَكْشِفُ سِتْرَ اللَّهِ عَنْهُ "، قَالَ زُهَيْرٌ: وَإِنَّ مِنَ الْهِجَارِ.
سالم نے کہا: میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے۔"میری تمام امت کو (گناہوں پر) معافی ملے گی۔سوائے ان لوگوں کے جو (اپنے گناہوں کا) اعلان کرنے والے ہیں۔ اعلان میں یہ ہے کہ بندہ رات کو ایک کام کرے پھر صبح ہو تو اللہ نے اس کا پردہرکھا ہوا ہو اور وہ خود کہے اے فلاں!میں نے پچھلی رات ایسا ایساکام کیا حالانکہ اس نے رات گزاردی اس کے رب نے اس پر پردہ ڈالے رکھا اور وہ صبح کرتا ہے تو وہ اپنے رب کا ڈالا ہوا پردہ خود اتاردیتا ہے۔"زہیر نے (اجہاریعنی اعلان کے بجائے) وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ (یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے) کہا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا،میری تمام امت کومعافی ملے گی۔سوائے ان لوگوں کے جو (اپنے گناہوں کا)اعلان کرنے والے ہیں۔ اعلان میں یہ ہے کہ بندہ رات کو ایک کام کرے پھر صبح ہو تو اللہ نے اس کا پردہرکھا ہوا ہو اور وہ خود کہے اے فلاں!میں نے پچھلی رات ایسا ایساکام کیا حالانکہ اس نے رات گزاردی اس کے رب نے اس پر پردہ ڈالے رکھا اور وہ صبح کرتا ہے تو وہ اپنے رب کا ڈالا ہوا پردہ خود اتاردیتا ہے۔"زہیر نے(اجهاریعنی اعلان کے بجائے) وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ (یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے)کہا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2990

   صحيح البخاري6069عبد الرحمن بن صخركل أمتي معافى إلا المجاهرين وإن من المجاهرة أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله عليه فيقول يا فلان عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنه
   صحيح مسلم7485عبد الرحمن بن صخركل أمتي معافاة إلا المجاهرين وإن من الإجهار أن يعمل العبد بالليل عملا ثم يصبح قد ستره ربه فيقول يا فلان قد عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه فيبيت يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنه
   المعجم الصغير للطبراني488عبد الرحمن بن صخر كل أمتي معافى إلا المجاهرين ، قيل : يا رسول الله ، ومن المجاهرون ؟ ، قال : الذى يعمل العمل بالليل فيستره ربه ، ثم يصبح ، فيقول : يا فلان عملت البارحة كذا وكذا ، فيكشف ستر الله عنه
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7485 کے فوائد و مسائل
  صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7485  
تشریح:
پوشیدہ گناہوں کو لوگوں پر ظاہر کرنا ایسا سخت گناہ کبیرہ ہے کہ معاف نہ ہو گا اس واسطے کہ اس میں گناہ پر جرات اور بےپروا ہی ثابت ہوتی ہے اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ظاہر کرنے والا اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اور یہ جو بعض نادان کہتے ہیں کہ صاحب جس کا اللہ سے پردہ نہیں اس کا آدمی سے پردہ کرنا کیا ضروری ہے؟ سو غلط سمجھے ہیں کہ اگر وہ شرماتا اور ظاہر نہ کرتا البتہ اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرتا اور جب کہ اس نے بےحیا بن کر خود اپنا پردہ فاش کیا تو مغفرت اور پردہ پوشی کے لائق نہ رہا اور حدیث میں آیا ہے کہ پوشیدہ گناہ کی پوشیدہ توبہ کرے اور ظاہر گناہ کی ظاہر ہو کر توبہ کرے تاکہ نیک لوگ خوش ہو کر اس کی توبہ کے گواہ ہوں یا اور گناہ گار اس کو دیکھ کر توبہ پر مستعد ہوں۔ [تحفته الاخيار]
   مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7485   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7485  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتاہےجو انسان چھپ کر اور پوشیدہ طور پر گناہ کرتا ہے اس کے اندر شرم و حیاء باقی ہے اور وہ اس کام کو برا ہی سمجھتا ہے،
اس لیے وہ اس کام سے باز آسکتا ہے،
توبہ کرسکتا ہے لیکن جو انسان کسی گناہ کا اعلانیہ طور پر ارتکاب کرتاہے،
اس کا معنی یہ ہے،
وہ شرم و حیا سے عاری ہے اور گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتا،
بلکہ ڈھٹائی سے کام لےکر اس کو یوں کرتا ہے کہ یہ بھی اچھا کام ہے،
یا دوسروں کی غیرت کو للکارتا ہے،
یا ان کے جذبات کا خون کرتا ہے،
اس لیے اس کام سے باز آنا یا توبہ کرناممکن نہیں رہتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7485   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6069  
6069. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: میری تمام امت کو معاف کر دیا جائے گا مگر جو اعلانیہ گناہ کرتے ہیں۔ علانیہ گناہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص رات کے وقت گناہ کرتا ہے باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ پر پردہ ڈالا ہوتا ہے لیکن صبح ہوتے ہی وہ کہنے لگتا ہے: اے فلاں! میں نے رات فلاں فلاں برا کام کیا تھا رات گزر گئی تھی اور اس کے رب نے اس کا گناہ چھپا رکھا تھا جب صبح ہوئی تو وہ خود پر دیےگئے اللہ کے پردے کھو لنے لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6069]
حدیث حاشیہ:
(1)
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت "سِتير'' بھی ہے کہ وہ پردہ پوشی کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ دنیا میں بندے کے بہت سے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے، اسی طرح آخرت میں بھی وہ اپنے بندوں کو ذلیل ورسوا نہیں کرے گا لیکن کچھ آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ خود اپنی پردہ دری کرتے ہیں، وہ چوری پھر سینہ زوری کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا چرچا کرتے ہیں کہ ہم نے آج رات فلاں فلاں گناہ کیا ہے۔
یہ تو بے حیائی اور بے باکی ہے جسے اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔
(2)
اللہ تعالیٰ بندے کے گناہ پر پردہ اسی صورت میں ڈالتا ہے کہ بندہ اپنے گناہ پر خود بھی پردہ ڈالنے والا ہو۔
اس کے برعکس جو انسان اپنے گناہوں کا چرچا کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو ناراض کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ بھی اس کے گناہوں پر پردہ نہیں ڈالے گا۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اور لوگوں سے حیا کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی تشہیر نہ کرے تاکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے پناہ میں رکھے اور اسے ذلیل وخوار نہ کرے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6069   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.