یحییٰ بن حسان نے ہمیں خبر دی کہ ہمیں معاویہ بن سلام نے اسی اسناد کے ساتھ اسی طرح حدیث سنائی، سوائے اس کے کہ (یحییٰ نے) قائما (کھڑا تھا) کے بجائے قاعداً (بیٹھاتھا) کہا اور (زیادۃ کبد النون کے بجائے) زائدۃ کبدالنون کہا (معنی ایک ہی ہے) اور انہوں نے اذکر و آنت (اس کے ہاں بیٹا اور بیٹی کی ولادت ہوتی ہے) کے الفاظ کہے، اور اذکر و آنثا (ان دونوں کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہےاور ان دونوں کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے) کے الفاظ نہیں کہے۔
یہی روایت مجھے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی نے یحیٰی بن حسان کے واسطہ سے معاویہ بن سلام کی مذکورہ بالا سند سے اس طرح سنائی، صرف اتنا فرق ہے کہ اوپر والی روایت میں قائماً (کھڑا تھا) ہے اور اس میں قاعدأ (بیٹھا تھا) اوپر لفظ (زیادہ) اور یہاں زائده أَذْکَرَا اور آنَثَا کی جگہ ذَکَرَوَ آنَثَ ہے، معنی ایک ہی ہے۔ اذکرا، اذکر مذکر ہونا۔ آنثا، آنث، مونث ہونا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 717
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ اگر سائل کی نیت مسئلہ کی حقیقت کو سمجھنا ہو، محض سوال برائے سوال یا مقصد برآری نہ ہو تو بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی جیسا کہ یہودی سوالات کے نتیجہ میں اصل حقیقت کو سمجھ گیا لیکن اگر نیت میں فتور ہو تو پھر سمجھ نہیں آتی کوئی نہ کوئی راہ فرار تلاش کر لی جاتی ہے جیسا کہ اس حدیث میں صریح الفاظ میں کہ: (ما ليعلم بشئي منه، حتي آتاني الله به) مجهے سوالات كے وقت ان كے جوابات معلوم نہیں تھے اللہ تعالیٰ نے بتا دیے۔ جس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ کو علم الغیب نہیں ہے ہاں ضرورت کی ہر چیز سے موقع اور محل پر اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے۔ لیکن بعض فضلاء اس کا معنی یہ کرتے ہیں میں ان کی طرف متوجہ نہیں تھا پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ان چیزوں کی طرف متوجہ کر دیا اگر مقصد سمجھا ہوتو اس معنوی تعریف کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ 2۔ حساب وکتاب کے وقت موجودہ آسمان وزمین بدل جائیں گے اور ان کی جگہ نئے آسمان وزمین کا ظہور ہو گا۔ اور اس وقت لوگ پل صراط کے قریب کھڑے ہوں گے اس لیے قرب کی بناء پر بعض حدیثوں میں (عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ) یا (عَلَى مَتْنِ جَهَنَّمَ) کے الفاظ آئے ہیں۔ 3۔ پانی کا رحم میں پہلے بھیجنا، تذکیر وتانیث کا سبب بنتا ہے، اورغلبہ وکثرت، مشابہت کا۔ 4۔ فقراء ومہاجرین کو جنت میں پہلے جانے کا شرف حاصل ہو گا، حالانکہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورعبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے اغنیاء درجہ اور مرتبہ میں ان سے بلند وبالا اور افضل ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ جن دیندار اور مومن لوگوں کے پاس مال ودولت کم ہے ان کے حساب وکتاب پر وقت کم لگے گا، اور اس سے جلد فارغ ہو جائیں گے۔