حدثنا سعيد بن منصور ، حدثنا يعقوب يعني ابن عبد الرحمن ، حدثني ابو حازم ، عن عبيد الله بن مقسم ، انه نظر إلى عبد الله بن عمر ، كيف يحكي رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قال: " ياخذ الله عز وجل سماواته وارضيه بيديه، فيقول: انا الله ويقبض اصابعه ويبسطها، انا الملك حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من اسفل شيء منه حتى إني لاقول اساقط هو برسول الله صلى الله عليه وسلم "،حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ ، أَنَّهُ نَظَرَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، كَيْفَ يَحْكِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: " يَأْخُذُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ سَمَاوَاتِهِ وَأَرَضِيهِ بِيَدَيْهِ، فَيَقُولُ: أَنَا اللَّهُ وَيَقْبِضُ أَصَابِعَهُ وَيَبْسُطُهَا، أَنَا الْمَلِكُ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ يَتَحَرَّكُ مِنْ أَسْفَلِ شَيْءٍ مِنْهُ حَتَّى إِنِّي لَأَقُولُ أَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "،
یعقوب بن عبدالرحمان نے کہا: مجھے ابو حازم نے عبیداللہ بن مقسم سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضر ت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا کہ وہ (حدیث بیان کرتے ہوئے عملاً) کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کرکے دکھاتے ہیں۔ (ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: "اللہ عزوجل اپنے آسمانوں اور اپنی زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لے گا پھر فرمائے گا"میں اللہ، میں بادشاہ ہوں۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ا پنی انگلیوں کو بند کرتے تھے اور کھولتے تھے۔حتیٰ کہ میں نے منبر کو دیکھا، وہ اپنے نچلے حصے سے (لے کر او پرکے حصے تک) ہل رہاتھا۔یہاں تک کہ میں نے کہا: کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گرجائے گا؟
عبید اللہ بن مقسم رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ اس نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھا وہ کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"اللہ عزوجل اپنےآسمانوں اور اپنی زمینوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے گا اور فرمائےگا۔میں ہوں، اللہ اور اپنی انگلیوں کو سمیٹے گا اور انہیں پھیلائے گا، میں ہوں بادشاہ۔"حتی کہ میں منبر کو دیکھا وہ نیچے تک سے حرکت کر رہا تھا حتی کہ میں دل میں کہہ رہا تھا، کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گر جائےگا؟"
يأخذ الله سماواته وأرضيه بيديه فيقول أنا الله ويقبض أصابعه ويبسطها أنا الملك حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من أسفل شيء منه حتى إني لأقول أساقط هو برسول الله
يطوي الله السماوات يوم القيامة ثم يأخذهن بيده اليمنى ثم يقول أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون ثم يطوي الأرضين بشماله ثم يقول أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون
يطوي الله السماوات يوم القيامة ثم يأخذهن بيده اليمنى ثم يقول أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون ثم يطوي الأرضين ثم يأخذهن قال ابن العلاء بيده الأخرى ثم يقول أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون
يأخذ الجبار سماواته وأرضيه بيده وقبض يده فجعل يقبضها ويبسطها ثم يقول أنا الجبار أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون قال ويتمايل رسول الله عن يمينه وعن شماله حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من أسفل شيء منه حتى إني لأقول أساقط هو برسول الله صل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7052
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: انگلیوں کے قبض وبسط کا تعلق اگر اللہ تعالیٰ سے ہے تو پھر اس کی کیفیت وحقیقت کوجانناممکن نہیں ہے اور اگر اس کا تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے تو پھر آپ نے آسمانوں اور زمینوں کے پھیلاؤاور سمیٹنے کی طرف اشارہ کیا کہ یہ اس طرح سمیٹ لیے جائیں گے، اللہ کے قبض و بسط کی کیفیت بیان کرنا مقصود نہیں ہے، کیونکہ اس کی کسی صفت کو تشبیہ دینا درست نہیں ہے، وہ تو ليس كمثله شئی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7052
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4732
´جہمیہ کے رد کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز اللہ آسمانوں کو لپیٹ دے گا، پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا، اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے؟ کہاں ہیں تکبر اور گھمنڈ کرنے والے؟ پھر زمینوں کو لپیٹے گا، پھر انہیں اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا، پھر کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے؟ کہاں ہیں اترانے والے؟۔“[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4732]
فوائد ومسائل: 1: اللہ عزوجل کی صفات میں وارد الفاظ واضح اور صریح ہیں، ہم انہیں اپنے رب تعالی کے حق میں بلا جھجک استعمال کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں، لیکن ان کی حقیقت کا ہمیں کوئی ادراک نہیں کیونکہ (لَیسَ کمثلهِ شيءٌ وھو السمیعُ البصیرُ)(الشوری) 2:اللہ کے دو ہاتھ ہیں اور دونوں ہی داہنے ہیں اور اللہ تعالی کلام کرنے سے موصوف ہے۔
3: حقیقی بادشاہ تو اب بھی اللہ عزوجل ہی ہے، مگر دنیا میں نام کے بادشاہ موجود ہیں اور ان میں جبار اور متکبر بھی ہیں، لیکن محشر میں کسی کا کوئی وجود نہیں ہو گا اور بادشاہت صرف ایک اکیلے اللہ کی ہوگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4732
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث198
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: ” «جبار»(اللہ تعالیٰ) آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کی اور پھر اسے باربار بند کرنے اور کھولنے لگے) اور فرمائے گا: میں «جبار» ہوں، کہاں ہیں «جبار» اور کہاں ہیں تکبر (گھمنڈ) کرنے والے؟“، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھکنے لگے یہاں تک کہ میں نے منبر کو دیکھا کہ نیچے سے ہلتا تھا، مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ وہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 198]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا ثبوت ملتا ہے۔ ہاتھ سے مراد قدرت لینا باطل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کر کے بات کو واضح فرما دیا ہے، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ذرہ بھر تعجب نہ ہوا، ورنہ خلاف عقل بات سمجھ کر ضرور سوال کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ؓ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کو من و عن تسلیم کرتے تھے۔ كَمَا يَلِيقُ بِجَلَالِه. اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا پتہ چلتا ہے کہ اتنی عظیم اور وسیع مخلوق اللہ تعالیٰ کے لیے ایک معمولی ذرے کی طرح ہے۔
(3) وعظ میں مناسب موقع پر جوش یا غضب کا اظہار جائز ہے۔
(4) تکبر(بڑائی کا اظہار) بہت بڑی خصلت ہے جو انسان جیسی ضعیف اور حقیر مخلوق کے لائق نہیں، البتہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان ہی اس لائق ہے کہ وہ تکبر یعنی بڑائی اور عظمت کے اظہار کی صفت سے متصف ہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 198
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4275
´حشر کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا: ”جبار (اللہ) آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا، (آپ نے مٹھی بند کی پھر اس کو بند کرنے اور کھولنے لگے) پھر فرمائے گا: میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں دوسرے جبار؟ کہاں ہیں دوسرے متکبر؟ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھک رہے تھے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ منبر کچھ نیچے سے ہل رہا تھا، حتیٰ کہ میں کہنے لگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گر نہ پڑے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4275]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اللہ کا ہاتھ ا س کی صفت ہے۔ جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔ اس کی تاویل کرنا بھی درست نہیں اور انسانی ہاتھ سے تشبیہ دینا بھی درست نہیں۔
(2) اللہ کا کلام کرنا بھی اس کی صفت ہے اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کلام فرماتا ہے۔ اور جس مخلوق سے کلام فرماتا ہے۔ انھیں آواز سنائی دیتی ہے۔ جیسے فرشتوں سے کلام فرماتا ہے۔ یا موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا ہے۔ یاقیامت کے دن بندوں سے کلام فرمائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4275