حدثني زهير بن حرب ، حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عن انس ، ان رجلا كان يتهم بام ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لعلي اذهب فاضرب عنقه "، فاتاه علي، فإذا هو في ركي يتبرد فيها، فقال له علي: اخرج فناوله يده فاخرجه، فإذا هو مجبوب ليس له ذكر فكف علي عنه، ثم اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنه لمجبوب ما له ذكر ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يُتَّهَمُ بِأُمِّ وَلَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِعَلِيٍّ اذْهَبْ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ "، فَأَتَاهُ عَلِيٌّ، فَإِذَا هُوَ فِي رَكِيٍّ يَتَبَرَّدُ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: اخْرُجْ فَنَاوَلَهُ يَدَهُ فَأَخْرَجَهُ، فَإِذَا هُوَ مَجْبُوبٌ لَيْسَ لَهُ ذَكَرٌ فَكَفَّ عَلِيٌّ عَنْهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَمَجْبُوبٌ مَا لَهُ ذَكَرٌ ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد (آپ کے فرزند کی والدہ) کے ساتھ مہتم کیا جاتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا: جاؤ اور اس کی گردن اڑا دو، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کے پاس گئے تو وہ ایک اتھلے (کم گہرے) کنویں میں ٹھنڈک کے لیے غسل کر رہا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: نکلو، اور (سہارا دینے کے لیے) اسے اپنا ہاتھ پکڑایا اور اسے باہر نکالا تو دیکھا کہ وہ ہیجڑا ہے، اس کا عضو مخصوص تھا ہی نہیں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ (اس کو قتل کرنے سے) رُک گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! وہ تو ہیجڑا ہے، اس کا عضو مخصوص ہے ہی نہیں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُم ولد (حضرت ماریہ قبطیہ) سے مہتم کیا جاتا تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا:"جاؤ اس کی گردن اڑادو۔" تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے پاس پہنچے اور وہ ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے ایک کنویں میں غسل کر رہا تھا سو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کہا، باہر نکل، اس نے انہیں اپنا ہاتھ پکڑا دیا اور انھوں نے اسے نکال لیا، دیکھا تو اس عضو مخصوص کٹا ہوا تھا، اس کا عضو تناسل نہیں تھا اس لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے قتل کرنے سے رک گئے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کا عضو مخصوص کٹا ہوا ہے، اس کا عضو تناسل تو ہے ہی نہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7023
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حدیث سے ثابت ہوتا ہے، بعض دفعہ کسی انسان پر بلاوجہ، بدظنی سے کام لیتے ہوئے تہمت لگادی جاتی ہے، جیسا کے یہ آدمی قبطی تھا بقول بعض حضرت ماریہ کا چچازاد تھا اور انھی کے ساتھ مصر سے آیا تھا اور حضرت ماریہ قبطیہ سے اپنے وطن کی باشندہ ہونے کی وجہ سے گفتگو کر لیتاتھا تو لوگوں نے اس پر یہ الزام لگا دیا اور لوگوں کے کہنے پر آپ اس کو قتل کر نے کا حکم دیا، جب حقیقت حال سامنے آئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل کرنے سے رک گئے اور آپ کو آکرآگاہ کیا، جس سے معلوم ہوا، قاضی تو گواہوں کا پابند ہے، جھوٹ اور سچ کے ذمہ دار وہ ہیں، باقی رہا یہ مسئلہ کہ وہ منافق آدمی تھا، آپ نے کسی اور سبب سے قتل کا حکم دیاتھا تو اس پر یہ سوال پیداہوتا ہے، پھر آپ نے حضرت علی کو سبب کیوں نہ بتایا، تاکہ وہ قتل کرنے سے باز نہ رہتے اور اگر وحی سے آپ کو اس کے عضوتناسل کے کٹے ہونے کا علم ہو گیا تھا تو آپ نے خود ہی لوگوں کو یہ کیوں نہ بتادیا، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ بغیر تفتیش وتحقیق کے قتل کردیتے تو پھر خواہ مخواہ آپ کی ام ولد متہم ٹھہرتی، چونکہ یہ روایت انتہائی مجمل ہے، معلوم نہیں حضرت علی کے بتانے کے بعدکہ اس کا عضو مخصوص نہیں ہے آپ نے کیا کہااس لیے اس کے بغیر کوئی قطعی بات نہیں کہی جاسکتی، اصل مقصود صرف حرم نبوی کی ان بد حرکات سے برات کا اظہار ہے۔