) اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور وہ (حضرت انس رضی اللہ عنہ) ان کے چچا ہیں، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر، جب وہ (بندہ) اس کی طرف توبہ کرتا ہے، تم میں سے کسی ایسے شخص کی نسبت کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جو ایک بے آب و گیاہ صحرا میں اپنی سواری پر (سفر کر رہا) تھا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل (کر گم ہو) گئی، اس کا کھانا اور پانی اسی (سواری) پر ہے۔ وہ اس (کے ملنے) سے مایوس ہو گیا تو ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ وہ اپنی سواری (ملنے) سے ناامید ہو چکا تھا۔ وہ اسی عالم میں ہے کہ اچانک وہ (آدمی) اس کے پاس ہے، وہ (اونٹنی) اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے اس کو نکیل کی رسی سے پکڑ لیا، پھر بے پناہ خوشی کی شدت میں کہہ بیٹھا، اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔ خوشی کی شدت کی وجہ سے غلطی کر گیا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" یقیناً جب اللہ کا کوئی بندہ اس کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس کو اپنے بندے کی توبہ سے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو اس وقت ہوتی ہے کہ وہ بیاباں جنگل میں اپنی سواری پر تھا تو وہ اس سے چھوٹ گئی جبکہ اس کا کھانا اور پینا اسی پر تھا تو وہ اس سے سواری سے ناامید ہو کر ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سایہ میں لیٹ گیا وہ اپنی سواری سے مایوس ہو چکا تھا وہ اس حالت میں تھا کہ وہ اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑی ہوئی پاتا ہے سو وہ اس کی مہار پکڑلیتا ہے پھر مسرت کی شدت میں مدہوش ہو کر کہتا ہے اے میرے اللہ!تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں مسرت کے بے پایاں ہونے کی بنا پر وہ چوک گیا (الفاظ الٹ دئیے)"