معاذ عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابواسحٰق سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعری سے، انہوں نے اپنے والد حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: "اے اللہ! میری خطاء میری لا علمی، اپنے (کسی) معاملے میں میرا حد سے آگے یا پیچھے رہ جانا اور وہ سب کچھ جو میری نسبت تو زیادہ جانتا ہے سب معاف فرما دے۔ اے اللہ! میرے وہ سب کام جو (تجھے پسند نہ آئے ہوں) میں نے سنجیدگی سے کیے ہوں یا مزاحا کیے ہوں، بھول چوک کر کیے ہوں یا جان بوجھ کر کیے ہوں اور یہ سب مجھ سے ہوئے ہوں، ان کو بخش دے۔ اے اللہ! میری وہ باتیں (جو تجھے پسند نہیں آئیں) بخش دے جو میں نے پہلے کیں یا جو میں نے بعد میں کیں، اکیلے میں کیں یا جو میں نے سب کے سامنے کیں اور جنہیں تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے، تو ہی (جسے چاہے اپنی رحمت کی طرف) آگے بڑھانے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔"
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ مجھے میری لغزشیں معاف کردے۔اور میری جہالت اور میرا میرے معاملات میں حد سے بڑھنا اور جس کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، ان سب کو بخش دے، اے میرے اللہ! جو کام میں نے سنجیدگی سے کیا ہواور جو میں نے دل لگی اور مذاق میں کیا ہےاور جو چوک اور قصدوارادہ سے کیا ہے ان سب کو معاف کردے، یہ سارے کام میں کر چکا ہوں، اے میرے اللہ! میری تقدیم و تاخیر یا میرے اگلے پچھلے قصور اور جو میں نے پوشیدہ طور پر کیے اور جو میں نے کھلے طور پر کیے اور جن کو تومجھ سے زیادہ جانتا ہے مجھے سب بخش دے تو ہی آگے بڑھا نے والا ہے۔(نیکی اطاعت یا درجات و مراتب کی طرف)اور توہی (توفیق سے محروم کر کے) پیچھے چھوڑنے والا ہے) اور تو ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6901
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپ نے اس دعا میں ان تمام امور کو جمع فرمادیا ہے، جو ایک عام انسان کی زندگی میں پائے جاتے ہیں، اور ایک بشر وانسان کی حیثیت سے آپ سے سرزد ہو سکتے ہیں، لیکن آپ نے اپنے بلندو بالا مقام کی حیثیت سے یوں بیان کیا گیاہے، گویا کہ یہ امور آپ سے سرزد ہو چکے ہیں، تاکہ ہم اللہ کے حضور میں یہ دعا کرکے، معافی کے خواستگار ہوں۔