منصور نے ہلال سے اور انہوں نے فروہ بن نوفل اشجعی سے روایت کی، کہا: میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے کیا دعائیں کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے: "اے اللہ! جو میں نے کیا اس کے شر سے اور جو میں نے نہیں کیا، اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔"
فروہ بن نوفل اشجعی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے کون سی دعا کرتے تھے، انھوں نے جواب دیا، آپ یہ دعا کرتے تھے۔"اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ان اعمال کے شر سے جو میں نے کیے ہیں اور ان اعمال کے شر سے جو میں نے نہیں کیے ہیں۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6895
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: کسی برے عمل کا سرزد ہوجانا اور اس طرح کسی اچھے اور نیک عمل کا رہ جانا، دونوں ایسی چیزیں ہیں، جن کے شر سے ہمیں پناہ مانگنی چاہیے، لیکن آپ چونکہ اللہ کی سب سے زیادہ معرفت رکھتے تھے، اس لیے سب سے زیادہ خشیت سے متصف تھے، اس لیے آپ اچھے سے اچھے عمل کرنے اور برے اور گندے اعمال سے دامن بچانے کے باوجودیہ سمجھتے تھے کہ شاید کوئی نیک عمل جو مجھے کرنا چاہیے تھا، میں وہ نہ کر سکا ہوں اور جو عمل میں نے کیے ہیں، شاید وہ اس حد تک نہ پہنچ سکے ہوں، جیسے وہ کرنے چاہیے تھے، نیز آپ ہمارے لیے نمونہ عمل تھے، اگر آپ یہ دعا نہ فرماتے تو ہمیں ان کا کیسے پتا چلتا اور ہمیں مانگنے کا اسلوب اور طریقہ کیسے آتا، نیز ہم میں اچھے عمل کرنے اور برے اعمال کے بچنے سے عجب و غرور اور نیکی و پاکدامنی کا پندار پیداہو سکتا ہے، جو انتہائی قبیح جرم ہے، اس لیے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے۔