الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 647
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان سو کر اٹھے،
تو اسے پانی کے برتن میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے،
جبکہ اسے یہ اندیشہ ہو کہ میرا ہاتھ ایسی جگہ لگ سکتا ہے جہاں ہاتھ لگنے کو انسان طبعی طور پر اچھا نہیں سمجھتا اور اگر کسی جگہ حقیقتاً نجاست لگی ہو،
اس کو تو ہرصورت میں تین دفعہ دھونا پڑے گا،
کیونکہ اس جگہ محض اندیشہ اور خطرے کی بنا پر ہاتھ کو تین دفعہ دھونے کا حکم دیا گیا ہے،
حالانکہ اگرانسان نے پانی سے استنجا کیا ہے،
تو اعضائے مخصوصہ پر کوئی ظاہری نجاست نہیں لگی ہوتی۔
اور ڈھیلے سے صفائی کی صورت میں بھی نجاست کا جرم یا مواد باقی نہیں رہتا،
اس کے باوجود ہاتھ کو تین دفعہ دھونا چاہیے،
اور اس حدیث کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ وہ برتن قلیل پانی والا ہو یا کثیر پانی والا،
بلکہ اس میں سو کر اٹھنے کے بعد پانی کے استعمال کے لیے ایک ادب،
تہذیب کی راہ بتلائی گئی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 647