یونس نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ان کا اور حر بن قیس بن حصن فزاری کاحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں مباحثہ ہوا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے، پھر حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کا ان دونوں کے پاس سے گزر ہوا توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا: ابوطفیل!ہمارے پاس آیئے، میں نے اور میرے اس ساتھی نے اس بات پر بحث کی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وہ ساتھی کون تھے جن سے ملاقات کا طریقہ انھوں نے پوچھا تھا؟آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں کچھ فرماتے ہو ئے سناہے؟تو حضرت اُبی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا: "موسیٰ علیہ السلام اسرائیل کی ایک مجلس میں تھے اور آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: کیاآپ کسی ایسے آدمی کو جا نتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟موسیٰ علیہ السلام نے کہا: نہیں، اس پر اللہ تعا لیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی، کیوں نہیں ہمارا بندہ خضرہے فرمایا: تو موسیٰ علیہ السلام نے ان سے ملنے کا طریقہ پو چھا تو اللہ تعا لیٰ نے مچھلی ان کی نشانی مقرر فرما ئی اور ان سے کہا گیا: جب آپ مچھلی گم پائیں تو لوٹیں، آپ کی ان سے ضرور ملا قات ہو جائے گی۔موسیٰ علیہ السلام جتنا اللہ نے چا ہا سفر کیا، پھر اپنے جوان سے کہا: ہمارا کھا نا لاؤ، جب موسیٰ علیہ السلام نے ناشتہ مانگا تو ان کے جوان نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس رکے تھےتو میں مچھلی کو بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے یہ بھلا دیا کہ میں (آپ کو) یہ بات بتا ؤں۔موسیٰ علیہ السلام نے اپنے جوان سے فرمایا: ہم اسی کی تلاش کر رہے تھے، چنانچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کے نشانات پر واپس چل پڑے۔دونوں کو حضرت خضر علیہ السلام مل گئے، پھر ان دونوں کے ساتھ وہی ہوا جو اللہ تعا لیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا۔مگر یونس نے یہ کہا: وہ (موسیٰ علیہ السلام) سمندر میں مچھلی کے آثار ڈھونڈرہے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ ان کا اور حر بن قیس بن حصن فزاری کاحضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے بارے میں مباحثہ ہوا،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ وہ خضر ؑ تھے،پھر حضرت ابی بن کعب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان دونوں کے پاس سے گزر ہوا توحضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بلایا اور کہا:ابوطفیل!ہمارے پاس آیئے،میں نے اور میرے اس ساتھی نے اس بات پر بحث کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے وہ ساتھی کون تھے جن سے ملاقات کا طریقہ انھوں نے پوچھا تھا؟آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں کچھ فر تے ہو ئے سناہے؟تو حضرت اُبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فر تے ہو ئے سنا:"موسیٰ ؑ اسرائیل کی ایک مجلس میں تھے اور آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا:کیاآپ کسی ایسے آدمی کو جا نتے ہیں جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہو؟موسیٰ ؑ نے کہا: نہیں،اس پر اللہ تعا لیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کی طرف وحی کی، کیوں نہیں ہمارا بندہ خضرہے فر یا:تو موسیٰ ؑ نے ان سے ملنے کا طریقہ پو چھا تو اللہ تعا لیٰ نے مچھلی ان کی نشانی مقرر فر ئی اور ان سے کہا گیا: جب آپ مچھلی گم پائیں تو لوٹیں،آپ کی ان سے ضرور ملا قات ہو جائے گی۔موسیٰ ؑ جتنا اللہ نے چا ہا سفر کیا،پھر اپنے جوان سے کہا: ہمارا کھا نا لاؤ،جب موسیٰ ؑ نے ناشتہ مانگا تو ان کے جوان نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس رکے تھےتو میں مچھلی کو بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے یہ بھلا دیا کہ میں (آپ کو) یہ بات بتا ؤں۔موسیٰ ؑ نے اپنے جوان سے فر یا:ہم اسی کی تلاش کر رہے تھے،چنانچہ وہ دونوں اپنے پاؤں کے نشانات پر واپس چل پڑے۔دونوں کو حضرت خضر ؑ مل گئے،پھر ان دونوں کے ساتھ وہی ہوا جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فر یا۔مگر یونس نے یہ کہا: وہ(موسیٰ ؑ)سمندر میں مچھلی کے آثار ڈھونڈرہے تھے۔