عبدالرحمان بن جبیر نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے انھیں حدیث سنائی کہ بنو ہاشم کے کچھ لوگ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے گھر گئے، پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ بھی آگئے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اس وقت ان کے نکاح میں تھیں۔انھوں نے ان لوگوں کو دیکھا تو انھیں ناگوارگزرا۔انھوں نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی، ساتھ ہی کہا: میں نے خیر کے سواکچھ نہیں دیکھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے (بھی) انھیں (حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو) اس سے بری قرار دیا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا؛"آج کے بعد کوئی شخص کسی ایسی عورت کے پا س نہ جائے جس کا خاوند گھر پر نہ ہو، الا یہ کہ اس کے ساتھ ایک یا دو لوگ ہوں۔"
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، بنو ہاشم کے کچھ لوگ حضرت اسماء بنت عمیس ؓ کے پاس آئے، پھر ابوبکر صدیق بھی آ گئے اور اسماء ان دنوں ان کی بیوی تھیں، ابوبکر نے ان کو دیکھ کر کراہت محسوس کی اور اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور کہا، میں نے خیر ہی دیکھی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے اس کو اس (برائی) سے بری رکھا ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: ”آج کے دن کے بعد کوئی آدمی ایسی عورت کے پاس نہ جائے، جس کا خاوند گھر میں موجود نہ ہو، الا یہ کہ اس کے ساتھ ایک دو آدمی ہوں۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5677
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: مغيبة: جس کا خاوند گھر میں نہ ہو، سفر پر ہویا گھر سے باہر کام کاج کے لیے گیا ہو۔ فوائد ومسائل: حضرت اسماء بنت عمیس، ایک جلیل القدر صحابیہ ہیں، جو حضرت جعفر بن ابی طالب کی بیوی تھیں، جنگ موتہ میں ان کی شہادت کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے شادی کر لی اور ان کی وفات کے بعد حضرت علی سے شادی کر لی، حضرت ابوبکر نے اپنی غیر حاضری میں بنو ہاشم کے لوگوں کی آمد کو طبعی غیرت و حمیت کی بنا پر پسند نہیں کیا، اگرچہ قابل اعتراض صورت نہیں دیکھی تھی، اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طبعی غیرت کا لحاظ رکھتے ہوئے فرمایا، اجنبی عورت کے پاس، تنہائی میں اتنے افراد جائیں، جن کے بارے میں شک و شبہ نہ ہو سکتا ہو، دو تین کی قید کا اصل مقصد یہی ہے، وگرنہ بنو ہاشم کے لوگ بھی چند تھے، کیونکہ ان کو نضرف سے تعبیر کیا گیا ہے کہ نضرف کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے، اس کے باوجود حضرت ابوبکر نے غیرت محسوس کی۔