قتیبہ بن سعید اور ابن ابی عمر نے کہا: "ہمیں سفیان نے یزید بن خصیفہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اور ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کے ہمرا اٹھ کھڑا ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور گواہی دی۔
امام صاحب کو یہی روایت قتیبہ بن سعید اور ابن ابی عمر سناتے ہیں، ابن ابی عمر کی حدیث میں یہ اضافہ ہے، ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں ان کے ساتھ اٹھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس جا کر شہادت دی۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5627
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) حضرت ابو موسیٰ اشعری کوفہ میں اپنے گورنری کے دور میں لوگوں کو اپنے دروازہ پر انتظار کرواتے تھے، جو ان کے لیے ناگواری کا باعث بنتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تک شکایت پہنچی تو انہوں نے حضرت ابو موسیٰ کے ساتھ سرزنش اور تادیب کے لیے یہی سلوک کیا، تاکہ انہیں اس کا احساس ہو سکے کہ یہ رویہ اچھا نہیں ہے، مزید برآں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی کام میں مشغول تھے، اس لیے انہیں اندر نہ بلوا سکے اور تمام علماء کا قرآن و سنت کی روشنی میں اس پر اتفاق ہے کہ کسی کے گھر میں اجازت لیے بغیر داخل ہونا جائز نہیں ہے، بعض حضرات کے نزدیک سورہ نور کی روشنی میں سلام کہنے سے پہلے اجازت طلب کی جائے گی اور اکثریت کے نزدیک سنت یہ ہے کہ پہلے سلام کہے پھر اجازت طلب کرے، یعنی السلام علیکم، أادخل؟؟ کیا میں اندر آ سکتا ہوں اور علامہ ماوردی کا خیال ہے، اگر دروازے پر آ کر، گھر والے پر نظر پڑ جائے تو پہلے سلام کہے، پھر اجازت طلب کرے، وگرنہ پہلے اذن طلب کرے، صحیح احادیث سے اکثریت کے قول کی تائید ہوتی ہے، آپ نے، ایک آدمی کو اجازت طلب کرنے کا سلیقہ سکھایا کہ یوں کہو: السلام عليكم، أادخل اور اجازت طلب کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بلا اجازت اچانک داخل ہونے کے سبب ممکن ہے، گھر والوں پر ایسی حالت میں نظر پڑ جائے، جس حالت میں ان کو دیکھنا، دونوں کے لیے شرمندگی کا باعث ہو، یا جس حالت میں وہ نظر آنا پسند نہ کرتے ہوں، یا وہ کسی ایسے کام میں مشغول ہوں، جس میں کسی کا مخل ہونا، ان کے لیے تکلیف کا باعث ہو، اس لیے آپ نے فرمایا، تیسری بار بھی اجازت نہ ملے تو لوٹ جاؤ، کیونکہ تیسری بار اجازت نہ ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ صاحب بیت کسی سبب سے کسی سے ملنا پسند نہیں کر رہا اور وہ واپس ہونے کا کہہ رہا ہے، اس لیے برضا و رغبت واپس لوٹ جانا چاہیے، اس کو ناگوار یا ناپسند نہیں کرنا چاہیے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، ”اگر تمہیں کہا جائے لوٹ جاؤ تو لوٹ جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ “(سورہ نور، آیت نمبر 28) ۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے، کسی کی مشغولیت یا آرام کے وقت میں اسے ٹیلی فون نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ بھی ایک طرح بلا اجازت داخل ہونا ہے، الا یہ کہ شدید ضرورت ہو، نیز اگر طویل گفتگو کرنی ہو تو گفتگو کرنے سے پہلے اجازت لینی چاہیے، ممکن ہے وہ کسی انتہائی اہم کام میں مشغول ہو اور طویل گفتگو اس کے کام میں حائل ہو اور اس کے لیے ذہنی پریشانی کا باعث ہونے کی بنا پر اس پر شاق گزر رہی ہو، نیز اجازت طلب کرنے کا مسئلہ اس صورت میں ہے، جب دروازہ پر کھڑے ہو کر سلام کہیں اور اجازت طلب کریں تو آواز گھر والوں تک پہنچ سکے، وگرنہ اگر گھنٹی لگی ہو تو اس کو آہستہ سے دبایا جائے گا، یا آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا جائے گا، گھنٹی یا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹانا درست نہیں ہو گا۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے شہادت کا مطالبہ اس لیے کیا تھا، تاکہ دوسرے لوگ آگاہ ہو جائیں، کہ حدیث کے بیان کرنے میں حزم و احتیاط کو اختیار کرنا چاہیے اور تحقیق و وثوق کے بغیر آپ کی طرف کوئی چیز منسوب نہیں کرنی چاہیے، یہ نہ ہو کہ کسی کو کوئی معاملہ درپیش ہو تو وہ اس کے بارے میں کوئی حدیث گھڑ کر پیش کر دے، اس لیے دوسروں کے لیے یہ دروازہ بند کرنے کے لیے، انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری جیسے جلیل القدر، صحابی سے بینہ کا مطالبہ کیا، جن کے بارے میں یہ تصور نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ غلط بیانی سے کام لیں، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مطالبہ سے یہ کشید کرنا کہ وہ خبر واحد کو حجت نہیں سمجھتے تھے، قطعا غلط ہے، کیونکہ جب حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ جیسے کم سن صحابی نے شہادت دی تو حضرت عمر نے اس کو مان لیا اور دو دو آدمیوں کی خبر بھی اصولی رو سے خبر واحد ہی ہے اور اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی کے اعتراض کرنے پر کہا تھا، سبحان اللہ! میں نے تو ایک بات سن کر اس کی تحقیق کرنا پسند کیا، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا، بعض احادیث، حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے ہر وقت کے ساتھ رہنے والے پر بھی مخفی رہ جاتی تھیں تو دوسروں کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے، انہیں ہر حدیث کا علم تھا۔