حارث بن یعقوب نے عبدالرحمٰن بن شماسہ سے روایت کی کہ فُقَیم لخمی نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ (تیر چھوڑنے اور جا لگنے کے) ان دو نشانوں کے درمیان چکر لگاتے ہیں جبکہ آپ بوڑھے ہیں اور یہ آپ کے لیے باعث مشقت بھی ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات نہ سنی ہوتی تو میں یہ تکلیف نہ اٹھاتا۔ حارث نے کہا: میں نے ابن شماسہ سے پوچھا: وہ بات کیا ہے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: "جس شخص نے تیر اندازی سیکھی، پھر اس کو ترک کر دیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔" یا (فرمایا:) "اس نے نافرمانی کی۔"
یہی روایت امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4948
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپ کی پیش گوئی کے مطابق مسلمانوں کو جلد ہی فتوحات حاصل ہونے والی تھیں اور رومی لوگ بہت بڑے تیر انداز تھے، اس لیے مسلمانوں کے لیے ضروری تھا، وہ تیر اندازی میں مہارت پیدا کرتے، تاکہ رومیوں سے جنگوں میں، اس سے صحیح فائدہ اٹھا سکتے اور اصل اعتماد اور بھروسہ مسلمان کا اللہ تعالیٰ پر ہو گا، وہی مسلمانوں کو دشمن کے شر سے محفوظ فرماتا ہے اور تیر اندازی کو لهو (کھیل، تماشہ) سے تعبیر کیا گیا ہے تاکہ اس کی طرف میلان میں آسانی پیدا ہو۔