حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 20
´ہر نبی کے لیے ایک دعائے مستجاب`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کو ایک دعا حاصل ہوتی ہے جو قبول کی جاتی ہے۔ پس ان شاء اللہ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا کو قیامت تک اپنی امت کی شفاعت کے لیے ملتوی اور مؤخر رکھوں۔“ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 20]
شرح الحديث:
"ابن بطال اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«وفي هذا الحديث بيان فضيلة نبينا عليه السلام على سائر الأنبياء عليهم السلام حين آثر أمته بما خصه الله به من اجابة الدعوة بالشفاعة لهم، ولم يجعل ذلك فى خاصة نفسه وأهل بيته .» [شرح صحيح بخارى، لابن بطال: 75/10]
"اس حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت بیان ہوئی ہے جو آپ کو تمام رسولوں پر حاصل ہے کہ آپ نے اس مخصوص دعا کے لیے ساری امت کی خاطر اپنے نفس اور اپنے اہل بیت کے لیے ایثار فرمایا۔ "
امام نووى رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
«وفي هذا الحديث بيان كمال شفقة النبى صلى الله عليه وسلم على أمته ورأفته لهم وأعتنائه بالنظر فى مصالحهم المهمة فأخر صلى الله عليه وسلم دعوته لأمته إلى أهم أوقات حاجاتهم ...... ففيه دلالة لمذهب أهل الحق أن كل من مات غير مشرك بالله تعالىٰ لم يخلد فى النار وان كان مصر على الكبائر .» [شرح صحيح مسلم، للنوى: 63/3]
"اس حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے امت پر شفقت کا اظہار ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ مقبول دعا امت کی شفاعت کے لیے قیامت کی مشکل گھڑیوں تک ملتوی کر رکھی ہے......اس میں ان پر بھی دلیل ہے کہ اہل سنت میں سے جو شخص خالص توحید پر مرا اور الله کے ساتھ شرک نہ کیا، وہ دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا، اگرچہ وہ کبائر پر اصرار کرتا ہوا مر جائے۔ "
کسی بھی کام پر ان شاء الله کہنا:
حدیث میں مذکورہ کلمہ «إِنْ شَآءَ اللهُ» "اگر الله نے چاہا۔ " الله کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے ہے، کیونکہ الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو حکم فرمایا:
«وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا * إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ» [الكهف: 23 ,24]
"اور آپ کسی کام کے متعلق ہرگز نہ کہیں کہ میں اسے کل کروں گا، یوں کہیے کہ "ان شاء الله" اگر الله چاہے گا (تو کروں گا)۔ "
صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 20