حدثني حسن بن علي الحلواني ، حدثنا ابو توبة ، حدثنا معاوية بن سلام ، عن زيد بن سلام ، انه سمع ابا سلام ، قال: حدثني النعمان بن بشير ، قال: كنت عند منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رجل: ما ابالي ان لا اعمل عملا بعد الإسلام إلا ان اسقي الحاج، وقال آخر: ما ابالي ان لا اعمل عملا بعد الإسلام إلا ان اعمر المسجد الحرام، وقال آخر: الجهاد في سبيل الله افضل مما قلتم، فزجرهم عمر، وقال: " لا ترفعوا اصواتكم عند منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يوم الجمعة، ولكن إذا صليت الجمعة دخلت فاستفتيته فيما اختلفتم فيه "، فانزل الله عز وجل اجعلتم سقاية الحاج وعمارة المسجد الحرام كمن آمن بالله واليوم الآخر سورة التوبة آية 19 الآية إلى آخرها،حَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا أُبَالِي أَنْ لَا أَعْمَلَ عَمَلًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَنْ أُسْقِيَ الْحَاجَّ، وَقَالَ آخَرُ: مَا أُبَالِي أَنْ لَا أَعْمَلَ عَمَلًا بَعْدَ الْإِسْلَامِ إِلَّا أَنْ أَعْمُرَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَقَالَ آخَرُ: الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَفْضَلُ مِمَّا قُلْتُمْ، فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ، وَقَالَ: " لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ عِنْدَ مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، وَلَكِنْ إِذَا صَلَّيْتُ الْجُمُعَةَ دَخَلْتُ فَاسْتَفْتَيْتُهُ فِيمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ "، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ سورة التوبة آية 19 الْآيَةَ إِلَى آخِرِهَا،
ابوتوبہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں معاویہ بن سلام نے زید بن سلام سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوسلام سے سنا، انہوں نے کہا: مجھے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی، کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس تھا کہ ایک شخص نے کہا: اسلام لانے کے بعد اگر میں صرف حاجیوں کو پانی پلاؤں اور اس کے سوا کوئی دوسرا عمل نہ کروں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ دوسرے نے کہا: اسلام لانے کے بعد اگر میں صرف مسجد حرام کو آباد کروں اور اس کے سوا اور کوئی دوسرا عمل نہ کروں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ تیسرے نے کہا: جو تم سب نے کہا اس سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا افضل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آواز اونچی نہ کرو۔ (پھر بتایا کہ) وہ جمعے کا دن تھا۔ لیکن (جمعے سے پہلے گفتگو کرنے کے بجائے) جب میں نے جمعہ پڑھ لیا تو حاضر خدمت ہوں گا اور جس کے بارے میں تم جھگڑ رہے ہو اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گا، تو (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (ہوئی) بھی (جو آپ نے سنائی): "کیا تم حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا اس شخص کے (عمل) جیسا سمجھتے ہو جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لایا (اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا؟) " آیت کے آخر تک۔
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس موجود تھا کہ ایک آدمی نے کہا، مجھے اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے کے سوا کوئی عمل نہ کروں تو کوئی پرواہ نہیں ہے، دوسرے شخص نے کہا، اگر میں اسلام لانے کے بعد مسجد حرام کی آبادی کے سوا کوئی عمل نہ کروں تو کوئی پرواہ نہیں ہے، تیسرے نے کہا، جو کچھ تم نے کہا، جہاد اس سے افضل ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو ڈانٹا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس اپنی آوازوں کو بلند نہ کرو اور یہ جمعہ کا دن تھا، لیکن جب میں جمعہ پڑھ لوں گا، آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر جس میں تم اختلاف کر رہے ہو، اس کے بارے میں دریافت کروں گا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا ”کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد کرنا، اس شخص کے عمل کے برابر قرار دیا ہے، جو اللہ اور آخرت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا“۔۔۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4871
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: وہ آیت مبارکہ جو پہلے نازل ہو چکی ہوتی اور اس سے کسی واقعہ کے لیے استدلال کیا جاتا، تو صحابہ کرام اس کو بھی نزول سے تعبیر کر دیتے تھے، کیونکہ یہ آیت تو مشرکین کے بارے میں اتری تھی۔