حدثني عمرو بن محمد الناقد ، حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن انس بن مالك " ان ثمانين رجلا من اهل مكة هبطوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم من جبل التنعيم متسلحين يريدون غرة النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه، فاخذهم سلما فاستحياهم، فانزل الله عز وجل وهو الذي كف ايديهم عنكم وايديكم عنهم ببطن مكة من بعد ان اظفركم عليهم سورة الفتح آية 24 ".حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ " أَنَّ ثَمَانِينَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ هَبَطُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِيمِ مُتَسَلِّحِينَ يُرِيدُونَ غِرَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، فَأَخَذَهُمْ سِلْمًا فَاسْتَحْيَاهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ سورة الفتح آية 24 ".
4679. حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اہل مکہ میں سے اَسی (80) آدمی اسلحہ سے لیس ہوکر (مکہ کے قریب واقع) جبلِ تنعیم کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کے لیے اترے، (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں مقیم تھے اور صلح کی بات چل رہی تھی۔) وہ دھوکے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر حملہ کرنا چاہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں لڑائی کے بغیر ہی پکڑ لیا اور ان کی جان بخشی کر دی (انھیں سزائے موت نہ دی) اس پر اللہ عزوجل نے نازل فرمایا: ”اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں تمھیں ظفر مند کرنے کے بعد ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے۔“
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ اہل مکہ سے اَسی آدمی مسلح ہو کر جبل تنعیم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اترے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی بے خبری میں حملہ کرنا چاہتے تھے، آپ نے ان کو لڑائی کے بغیر ہی پکڑ لیا اور انہیں زندہ چھوڑ دیا، تو اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ فتح کی یہ آیت اتاری ”وہ وہی ذات ہے، جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا، مکہ کے اندر، اس کے بعد کہ وہ تمہیں ان پر غلبہ دے چکا تھا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4679
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) متسلحين: مسلح، ہتھیاروں سے لیس، غرة، غفلت و بے خبری۔ (2) سلما: بقول قاضی عیاض، اس کا معنی ہے، ان کو قیدی بنا لیا اور بقول خطابی، انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ (3) ﴿وَاَلقَوْاإِلَيْكَمُ السَّلم﴾ انہوں نے تمہارے سامنے ہتھیار ڈال دئیے، تمہارے مطیع ہو گئے، کیونکہ وہ مقابلہ کی تاب نہ لا سکے۔ (4) فاستحياهم: آپ نے ان کو زندہ رکھا، یعنی آپ نے ان کو معاف کر دیا۔ تاکہ صلح ہو سکے اور آغاز ہی میں ختم نہ ہو جائے۔ فوائد ومسائل: حدیبیہ میں قیام کے دوران جبل تنعیم سے ہتھیار بند مکہ کے اسی (80) جوانوں کا ایک دستہ آپ اور مسلمانوں کے خلاف چھیڑ چھاڑ کے لیے اترا، مسلمانوں نے ان سب کو زندہ گرفتار کر لیا، (مسلمانوں کے گرفتار کرنے کو آپ کا گرفتار کرنا قرار دیا گیا ہے، یہی حال (كَتَبَ) کا ہے، کہ آپ کے حکم سے لکھا گیا، اس لیے مختلف احادیث میں لکھنے کی نسبت آپ کی طرف کردی گئی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ صلح چاہتے تھے، اس لیے آپ نے سب کو رہا کرنے کا حکم دیا، تو یہ آیت اتری۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4679
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2688
´قیدی پر احسان رکھ کر بغیر فدیہ لیے مفت چھوڑ دینے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں میں سے اسی آدمی جبل تنعیم سے نماز فجر کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے لیے اترے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کسی مزاحمت کے بغیر گرفتار کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم ببطن مكة» إلى آخر الآية (سورۃ الفتح: ۲۴)”اللہ ہی نے ان کا ہاتھ تم سے اور تمہارا ہاتھ ان سے وادی مکہ میں روک دیا۔“[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2688]
فوائد ومسائل: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ (فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا)(محمد۔ 4) جب کافروں سے گھمسان کا رن پڑے۔ تو ان کی گردنوں پروار کرو۔ جب ان کوخوب کاٹ چکو تو اب خوب مظبوط باندھ کر قید کرلو۔ پھر اختیار ہے کہ خواہ احسان کر کے چھوڑدو یا فدیہ (عوض اور بدل) لے کر۔ یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے۔ فائدہ: یہ لوگ قریش کے پرجوش اور جنگ باز نوجوان تھے۔ جو اپنے بڑوں کی رائے کے برخلاف مسلمانوں کے ساتھ صلح کے حق میں نہ تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر یہ خطرناک پروگرام بنایا جس اللہ تعالیٰ نے مٹی میں ملا دیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فدیہ لئے بغیر بطور احسان کے ان کو رہا کردیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2688
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3264
´سورۃ الفتح سے بعض آیات کی تفسیر۔` انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ پر حملہ آور ہونے کے لیے اسی (۸۰) کی تعداد میں کافر تنعیم پہاڑ سے نماز فجر کے وقت اترے، وہ چاہتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں، مگر سب کے سب پکڑے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں چھوڑ دیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت: «وهو الذي كف أيديهم عنكم وأيديكم عنهم»”وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے“(الفتح: ۲۴)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3264]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: وہی ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے۔ (الفتح: 24)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3264