وحدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن سرح ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، قال: حدثني كثير بن عباس بن عبد المطلب ، قال: قال عباس " شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين، فلزمت انا وابو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلم نفارقه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلة له بيضاء اهداها له فروة بن نفاثة الجذامي، فلما التقى المسلمون والكفار ولى المسلمون مدبرين، فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يركض بغلته قبل الكفار، قال عباس: وانا آخذ بلجام بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم اكفها إرادة ان لا تسرع، وابو سفيان آخذ بركاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي عباس ناد اصحاب السمرة، فقال عباس: وكان رجلا صيتا، فقلت باعلى صوتي: اين اصحاب السمرة، قال: فوالله لكان عطفتهم حين سمعوا صوتي عطفة البقر على اولادها، فقالوا: يا لبيك يا لبيك، قال: فاقتتلوا والكفار والدعوة في الانصار، يقولون: يا معشر الانصار يا معشر الانصار، قال: ثم قصرت الدعوة على بني الحارث بن الخزرج، فقالوا: يا بني الحارث بن الخزرج يا بني الحارث بن الخزرج، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على بغلته كالمتطاول عليها إلى قتالهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هذا حين حمي الوطيس، قال: ثم اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم حصيات فرمى بهن وجوه الكفار، ثم قال: انهزموا ورب محمد، قال: فذهبت انظر فإذا القتال على هيئته فيما ارى، قال: فوالله ما هو إلا ان رماهم بحصياته فما زلت ارى حدهم كليلا وامرهم مدبرا "،وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ: قَالَ عَبَّاسٌ " شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَلَزِمْتُ أَنَا وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نُفَارِقْهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ بَيْضَاءَ أَهْدَاهَا لَهُ فَرْوَةُ بْنُ نُفَاثَةَ الْجُذَامِيُّ، فَلَمَّا الْتَقَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ وَلَّى الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْكُفَّارِ، قَالَ عَبَّاسٌ: وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكُفُّهَا إِرَادَةَ أَنْ لَا تُسْرِعَ، وَأَبُو سُفْيَانَ آخِذٌ بِرِكَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْ عَبَّاسُ نَادِ أَصْحَابَ السَّمُرَةِ، فَقَالَ عَبَّاسٌ: وَكَانَ رَجُلًا صَيِّتًا، فَقُلْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي: أَيْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حِينَ سَمِعُوا صَوْتِي عَطْفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا، فَقَالُوا: يَا لَبَّيْكَ يَا لَبَّيْكَ، قَالَ: فَاقْتَتَلُوا وَالْكُفَّارَ وَالدَّعْوَةُ فِي الْأَنْصَارِ، يَقُولُونَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: ثُمَّ قُصِرَتِ الدَّعْوَةُ عَلَى بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَقَالُوا: يَا بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ يَا بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ كَالْمُتَطَاوِلِ عَلَيْهَا إِلَى قِتَالِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا حِينَ حَمِيَ الْوَطِيسُ، قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَيَاتٍ فَرَمَى بِهِنَّ وُجُوهَ الْكُفَّارِ، ثُمَّ قَالَ: انْهَزَمُوا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَى هَيْئَتِهِ فِيمَا أَرَى، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ بِحَصَيَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَى حَدَّهُمْ كَلِيلًا وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا "،
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے کہا: مجھے کثیر بن عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: حنین کے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، میں اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، آپ سے جدا نہ ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر (سوار) تھے جو فرقہ بن نُفاثہ جذامی نے آپ کو تحفے میں دیا تھا۔ جب مسلمانوں اور کفار کا آمنا سامنا ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے، (مگر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر کو ایڑ لگا کر، کفار کی جانب بڑھنے لگے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھا، میں چاہتا تھا کہ وہ تیزی سے (آگے) نہ بڑھے اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب کو پکڑا ہوا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عباس! کیکر کے درخت (کے نیچے بیعت کرنے) والوں کو آواز دو۔" حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا:۔۔ اور وہ بلند آواز والے تھے۔۔ میں نے اپنی بلند ترین آواز سے پکار کر کہا: کیکر کے درخت والے کہاں ہیں؟ کہا: اللہ کی قسم! میری آواز سن کر ان کا پلٹنا اس طرح تھا جیسے گائے اپنے بچوں کی (آواز سن کر ان کی) طرف پلٹتی ہے۔ اور وہ (جواب میں) کہنے لگے: حاضر ہیں! حاضر ہیں! کہا: تو وہ کفار سے بھڑ گئے، پھر انصار میں بلاوا دیا گیا (بلاوا دینے والے) کہتے تھے: اے انصار کی جماعت! اے انصار کی جماعت! پھر اس ندا کو بنی حارث بن خزرج تک محدود کر دیا گیا اور انہوں نے کہا: اے بنو حارث بن خزرج! اے بنو حارث بن خزرج! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خچر پر بیٹھے ہوئے، گردن کو آگے کر کے دیکھنے والے کی طرح، ان کی لڑائی کا جائزہ لیا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ گھڑی ہے کہ (لڑائی کا) تنور گرم ہوا ہے۔" پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں پکڑیں اور انہیں کافروں کے چہروں پر مارا، پھر فرمایا: "محمد کے پروردگار کی قسم! وہ شکست کھا گئے۔" کہا: میں دیکھنے لگا تو میرے خیال کے مطابق لڑائی اسی طرح جاری تھی۔ کہا: اللہ کی قسم! پھر یہی ہوا کہ جونہی آپ نے ان کی طرف کنکریاں پھینکیں تو میں دیکھ رہا تھا کہ ان کی دھار کند ہو گئی ہے اور ان کا معاملہ پیچھے جانے کا ہے
حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر تھا، میں اور ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ بن حارث بن عبدالمطلب آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم سے جدا نہ ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفید خچر پر سوار تھے، جو آپ کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے تحفہ کے طور پر پیش کی تھی، تو جب مسلمانوں اور کافروں کی مڈبھیڑ ہوئی، مسلمان پیٹھ پھیر کر لوٹ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر کو کافروں کی طرف ایڑ لگانے لگے، حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی لگام پکڑے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کر رہا تھا، تاکہ وہ تیز نہ بھاگے اور ابو سفیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب پکڑے ہوئے تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عباس! اصحاب سمرہ کو آواز دو“، عباس رضی اللہ تعالی عنہ جو بہت بلند آواز تھے، بیان کرتے ہیں، میں نے بلند آواز سے کہا، بیعت رضوان کرنے والے کہاں ہیں؟ تو اللہ کی قسم! میری آواز سن کر، وہ اس طرح مڑے جس طرح گائے اپنے بچوں کی طرف مڑتی ہے یا پلٹتی ہے، انہوں نے کہا، ہاں، حاضر ہیں، ہاں حاضر ہیں! اور وہ دشمن (کافروں) سے ٹکرا گئے اور انصار کو یہ کہتے ہوئے بلانے لگے، اے انصار کی جماعت! اے انصار کی جماعت! پھر صرف بنو حارث بن خزرج کو آواز دینے لگے، اے حارث بن خزرج کی اولاد، اے حارث بن خزرج کے بیٹو! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خچر پر گردن اٹھاتے ہوئے، ان کی لڑائی پر نظر ڈالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت لڑائی کا تنور گرم ہے۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکر اٹھا کر کافروں کے چہروں پر مارے اور پھر فرمایا: ”ہزیمت سے دوچار، محمد کے رب کی قسم!“ عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں دیکھنے لگا تو میرے خیال میں، لڑائی کا انداز برقرار تھا اور اللہ کی قسم، جوں ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر ان پر پھینکے تو ان کی تیزی مسلسل گھٹنے لگی اور ان کا معاملہ الٹنے لگا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4612
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) فَوَلَٰي المُسلِمُونَ مُدبِرين: بنو ہوازن کمین گاہوں میں چھپے ہوئے تھے، انہوں نے اچانک اس زور سے حملہ کیا کہ ان کے سامنے آنے والے مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستہ مقابلہ میں رہا اور پیچھے والا دستہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ پہنچ سکا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ اکیلے ہی تیزی سے خچر سے اتر کر، دشمن کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ (2) أصحَابُ الشَّجَرَة: وہ لوگ جنہوں نے کیکر کے درخت کے نیچے، حدیبیہ کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت رضوان کی تھی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آواز بہت گرجدار اور بلند تھی۔ (3) لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حِينَ عَطْفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا: جس طرح گائے، اپنے چھوٹے بچے کی آواز سن کر فوری طور پر اس کی طرف پلٹتی ہے، اس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آواز سن کر فوراً پلٹے حتی کہ وہ اونٹوں سے چھلانگیں لگا کر آواز کی طرف دوڑ پڑے۔ (4) هَذَا حِينَ حَمِيَ الْوَطِيسُ: وطیس تنور کو کہتے ہیں اور یہ محاورہ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب لڑائی انتہائی شدید ہو جائے۔ (5) أَرَى حَدَّهُمْ كَلِيلًا: ان کی قوت و طاقت کمزور پڑ رہی ہے۔ فوائد ومسائل: جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح سے نوازا تو عرب قبائل ششدر رہ گئے اور ان میں سے اکثر قبائل نے سپر ڈال دی، لیکن چند قبائل نے اس کو اپنی عزت نفس اور خودی کے خلاف سمجھا اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے، ان میں سرفہرست ہوازن اور ثقیف تھے، ان کے ساتھ نصر، جثم، سعد بن بکر کے قبائل اور بنو ہلال کے کچھ لوگ شریک ہو گئے ان سب قبائل کا تعلق قیس عیلان سے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن کی روانگی کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دے کر روانہ کیا کہ لوگوں کے درمیان گھس کر ان میں ٹھہریں اور ان کے حالات کا ٹھیک ٹھیک پتہ لگا کر آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیں، جنہوں نے تمام حالات معلوم کر کے آ کر آپ کو صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے شوال 8ھ کو مکہ سے حنین کا رخ کیا، بارہ ہزار فوج آپ کے ہم رکاب تھی، دس ہزار (10000) آپ کے وہ ساتھی جو فتح مکہ کے لیے آپ کے ساتھ آئے تھے اور دو ہزار مکہ کے باشندے، جن میں اکثریت نو مسلموں کی تھی، اسلامی لشکر 10 شوال کو حنین پہنچا اور وہ دشمن کے وجود سے قطعی بے خبر تھے، اس کے اچانک حملہ سے اگلے دستہ کے مسلمان سنبھل نہ سکے، اس لیے بھاگ کھڑے ہوئے، اس شدید بگھوڑے کے باوجود آپ کا رخ کفار کی طرف تھا اور پیش قدمی کے لیے اپنے خچر کو ایڑ لگا رہے تھے، پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آواز پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی سرعت سے واپس پلٹے، تفصیلات کے لیے الرحیق المختوم میں غزوہ حنین پڑھیے۔