صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
13. باب اسْتِحْقَاقِ الْقَاتِلِ سَلَبَ الْقَتِيلِ:
13. باب: قاتلوں کو مقتول کا سامان دلانا۔
Chapter: The killer is entitled to the belongings of the one who is killed
حدیث نمبر: 4570
Save to word اعراب
وحدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن سرح ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني معاوية بن صالح ، عن عبد الرحمن بن جبير ، عن ابيه ، عن عوف بن مالك ، قال: " قتل رجل من حمير رجلا من العدو، فاراد سلبه، فمنعه خالد بن الوليد وكان واليا عليهم، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عوف بن مالك فاخبره، فقال لخالد: ما منعك ان تعطيه سلبه؟، قال: استكثرته يا رسول الله، قال: ادفعه إليه، فمر خالد، بعوف فجر بردائه، ثم قال: هل انجزت لك ما ذكرت لك من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فسمعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستغضب، فقال: لا تعطه يا خالد لا تعطه يا خالد، هل انتم تاركون لي امرائي؟ إنما مثلكم ومثلهم كمثل رجل استرعي إبلا او غنما، فرعاها ثم تحين سقيها فاوردها حوضا، فشرعت فيه، فشربت صفوه وتركت كدره فصفوه لكم وكدره عليهم "،وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ رَجُلًا مِنَ الْعَدُوِّ، فَأَرَادَ سَلَبَهُ، فَمَنَعَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَكَانَ وَالِيًا عَلَيْهِمْ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لِخَالِدٍ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تُعْطِيَهُ سَلَبَهُ؟، قَالَ: اسْتَكْثَرْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ادْفَعْهُ إِلَيْهِ، فَمَرَّ خَالِدٌ، بِعَوْفٍ فَجَرَّ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ أَنْجَزْتُ لَكَ مَا ذَكَرْتُ لَكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتُغْضِبَ، فَقَالَ: لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي أُمَرَائِي؟ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُهُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِيَ إِبِلًا أَوْ غَنَمًا، فَرَعَاهَا ثُمَّ تَحَيَّنَ سَقْيَهَا فَأَوْرَدَهَا حَوْضًا، فَشَرَعَتْ فِيهِ، فَشَرِبَتْ صَفْوَهُ وَتَرَكَتْ كَدْرَهُ فَصَفْوُهُ لَكُمْ وَكَدْرُهُ عَلَيْهِمْ "،
معاویہ بن صالح نے عبدالرحمان بن جبیر سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حمیر کے ایک آدمی نے دشمن کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور اس کا سلب (مقتول کا سازوسامان) لینا چاہا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے انہیں منع کر دیا اور وہ ان پر امیر تھے، چنانچہ عوف بن مالک رضی اللہ عنہ (اپنے حمیری ساتھی کی حمایت کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو بتایا تو آپ نے خالد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: "تمہیں اس کے مقتول کا سامان اسے دینے سے کیا امر مانع ہے؟" انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نے اسے زیادہ سمجھا۔ آپ نے فرمایا: "وہ (سامان) ان کے حوالے کر دو۔" اس کے بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ان کی چادر کھینچی اور کہا: کیا میں نے پورا کر دیا جو میں نے آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کہا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سن لی تو آپ کو غصہ آ گیا اور فرمایا: "خالد! اسے مت دو، خالد! اسے مت دو۔ کیا تم میرے (مقرر کیے ہوئے) امیروں کو میرے لیے چھوڑ سکتے ہو (کہ میں اصلاح کروں، تم طعن و تشنیع نہ کرو!) تمہاری اور ان کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جسے اونٹوں یا بکریوں کا چرواہا بنایا گیا، اس نے انہیں چرایا، پھر ان کو پانی پلانے کے وقت کا انتظار کیا اور انہیں حوض پر لے گیا، انہوں نے اس میں سے پینا شروع کیا تو انہوں نے اس کا صاف پانی پی لیا اور گدلا چھوڑ دیا تو صاف پانی تمہارے لیے ہے اور گدلا ان کا
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حمیری آدمی نے دشمن کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور اس کی سلب لینی چاہی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ جو ان کے امیر تھے، نے اسے روک دیا، حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد سے پوچھا، تو نے اسے سلب دینے سے کیوں انکار کیا؟ اس نے کہا، میں نے اسے زیادہ محسوس کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے حوالہ کر دو۔ اس کے بعد حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عوف رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سے گزرے تو اس نے ان (خالد) کی چادر کھینچ لی، پھر کہا، کیا میں نے تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، وہ پورا کر دیا؟ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے اور فرمایا: اسے نہ دو، اے خالد، اسے نہ دو، اے خالد۔ کیا تم میری خاطر، میرے امیروں پر طعن کرنے سے باز نہیں رہو گے؟ بس تمہاری مثال اور ان کی مثال اس آدمی کی ہے، جس کو اونٹوں کا یا بکریوں کا چرواہا مقرر کیا گیا، اس نے ان کو چرایا، پھر اس نے ان کو پانی پلانے کے وقت کا انتظار کیا اور انہیں حوض پر لے گیا، انہوں نے اسے پینا شروع کیا اور اس کا صاف صاف پانی پی لیا اور اس کا گدلا پانی چھوڑ دیا تو گھاٹ کا خالص پانی تمہارے لیے ہے اور گدلا ان کے لیے ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1753

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4570 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4570  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ واقعہ جنگ موتہ کا ہے کہ حمیری آدمی نے ایک رومی شاہسوار کو قتل کر ڈالا اور اس کی سلب لے لی اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس کو زیادہ خیال کرتے ہوئے،
سلب واپس لے لی تو حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد کو کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہی ہے کہ سلب قاتل کو ملے گی،
اس لیے آپ سلب واپس کر دیں وگرنہ میں یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا۔
لیکن حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے سلب زیادہ خیال کرتے ہوئے واپس کرنے سے انکار کر دیا تو واپسی پر حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد کو سلب دے دینے کا حکم دیا تو حضرت عوف نے خالد پر طنز کی کہ کیوں میں نے جو کچھ کہا تھا،
اس کو پورا کر دکھایا یا نہ،
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے،
کیونکہ امراء پر طنز و طعن کرنا،
ان کی اطاعت اور توقیر و تکریم کے منافی ہے،
اس سے ان کی بے وقعتی اور بے وقاری لازم آتی ہے۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد کو سلب روک دینے کا حکم دے دیا،
حالانکہ آپ دینے کا فیصلہ دے چکے تھے تاکہ امیر کا وقار بحال ہو اور اس پر طعن و تشنیع کا دروازہ بند ہو سکے،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیا تم میرے امراء پر طعن سے باز نہیں رہو گے،
پھر ایک تمثیل کے ذریعے یہ بات سمجھائی کہ تمہارے لیے تو غنیمت میں خالص حصہ ہے،
جس کے لیے تمہیں کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی،
لیکن تمام غنیمت کو جمع کرنا اور لشکر کی حفاظت کرنا،
ان کا دفاع کرنا،
ان کے اختلافات کو دور کرنا اور غنیمت کو لشکر میں تقسیم کرنا یہ تمام امور،
امیر کے ذمہ ہیں،
اس کی خاطر اسے محنت و مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے تو کیا تم ان کی کسی لغزش پر طعن و تشنیع کرنے سے باز نہیں رہ سکتے اور اگر کسی مصلحت کے تحت،
سلب قاتل کو نہ ملے تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ سلب قاتل کا حق نہیں ہے،
اگر یہ امام کی مرضی پر موقوف ہوتا ہو آپ پہلے خالد کو سلب دینے کا حکم کیوں دیتے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4570   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.