حدثنا إبراهيم، حدثنا محمد بن عبد الوهاب الفراء، عن الحسين بن الوليد، عن شعبة بهذا.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْفَرَّاءُ، عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا.
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4524
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) سَرِيه ج سرايا: لشکر کی پارٹی، شب خون مارنے کے لیے۔ (2) لَاتَفَلُّوا: غنیمت میں خیانت نہ کرو۔ (3) لَاتَغدِرُوا: عہد شکنی نہ کرو۔ (4) لَاتَمَثَّلُوا: شکل و صورت نہ بگاڑو، یعنی دشمن کے اعضاء (ہاتھ، کان، ناک وغیرہ) نہ کاٹو۔ فوائد ومسائل: اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے اور جہاد کا مقصد اور غایت، اس دنیا کے خالق اور مالک کی حکمرانی قائم کرنا ہے اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا ہے تاکہ دنیا سے ظلم و ستم اور دنگا و فساد کو ختم کیا جا سکے، اس لیے اس نے جہاد کے لیے بھی کچھ اصول اور آداب مقرر کئے ہیں، جن کی پابندی ضروری ہے، اس نے کسی ایسے فرد کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جو جنگ کے قابل نہیں ہے یا جنگ میں حصہ دار نہیں ہے اور قتل کی صورت میں بھی اس کی شکل و صورت کو بگاڑنے اور مسخ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور آغاز اسلام میں جب مہاجرین کی مدینہ میں تعداد کم تھی، اس وقت مسلمانوں والے حقوق حاصل کرنے کے لیے، مدینہ کی طرف ہجرت فرض تھی، لیکن اب مسلمان ہونے کے لیے ہجرت ضروری نہیں ہے۔ فسلهم الجزية: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ہر قسم کے کافروں سے جزیہ لینا درست ہے عربی ہوں یا عجمی، اہل کتاب ہوں یا مشرک، امام ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ کافروں کی تین اقسام ہیں: (1) اہل کتاب، یہود اور نصاریٰ (عیسائی) جو توراۃ اور انجیل پر ایمان رکھتے ہیں، ان سے جزیہ قبول کیا جائے گا اور وہ اپنے دین پر قائم رہیں گے۔ (2) جو اہل کتاب کے مشابہ ہیں، یہ مجوس (آگ پرست) ہیں، جزیہ کی قبولیت میں وہ اہل کتب کے حکم میں ہیں، اہل علم میں بھی ان سے جزیہ قبول کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (3) ان دونوں قسموں کے علاوہ جو مشرک ہیں، ان سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا، امام احمد اور شافعی کے یہی موقف ہے اور امام احمد کا ایک قول یہ ہے کہ عرب مشرکوں کے سوا تمام کافروں سے جزیہ قبول کیا جائے گا، امام ابو حنیفہ کا موقف یہی ہے اور امام مالک کے نزدیک، مشرکین قریش کے سوا تمام کافروں سے جزیہ قبول کیا جائے گا۔ (المغني، ج 13، ص 31-32) اور اس حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے، لیکن دوسرے دلائل کی رو سے امام شافعی اور امام احمد کا موقف درست معلوم ہوتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے، المغنی، ج 13، 32-33) لَاتَجعَل لَهُم ذِمَّة اللهِ وَالذمَة نَبِيِّه: اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے عہد و پیمان نہ دو، کیونکہ بعض دفعہ کسی جنگی مصلحت کے تحت، اس کو توڑنے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے تو ایسی صورت میں اللہ اور رسول کی طرف سے عہد و پیمان دے کر اس کو توڑنا بہت مشکل ہے۔