افع بن عمر نے ابن ابی ملیکہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم مدعا علیہ پر ہونے کا فیصلہ کیا
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھانے کا فیصلہ، مدعی علیہ کے بارے میں کیا ہے (قسم مدعی علیہ اٹھائے)۔
اليمين على المدعى عليه لو أن الناس أعطوا بدعواهم لادعى ناس أموال ناس ودماءهم فادعها واتل عليها هذه الآية إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا أولئك لا خلاق لهم في الآخرة
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4471
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قسم اٹھانا، مدعی علیہ کے ذمہ ہے، اگر وہ قسم اٹھاوے گا تو بری الذمہ ہو جائے گا اور اگر قسم نہیں اٹھائے گا تو مدعی کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا اور مدعی علیہ کے قسم سے انکار پر مدعی کو قسم اٹھانے کے لیے نہیں کہا جائے گا، امام ابو حنیفہ اور امام احمد کا موقف یہی ہے، لیکن امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک مدعی علیہ کے قسم سے انکار پر اس کے خلاف فیصلہ نہیں کیا جائے گا، امام مالک کے نزدیک مالی معاملات میں مدعی کو قسم اٹھانے کے لیے کہا جائے گا، اگر قسم اٹھا لے گا تو اس کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے گا اور امام شافعی کے نزدیک ہر قسم کے دعویٰ میں مدعی کو قسم اٹھانے کے لیے کہا جائے گا، قسم کے بغیر اس کے حق میں فیصلہ نہیں کیا جائے گا، لیکن یہ خیال رہے، حدود کے مسئلہ میں قسم نہیں ہے، باقی دعادی کے بارے میں، قسم کے بارے میں اختلاف ہے، کیونکہ حقوق دو قسم کے ہیں(1) حقوق اللہ (2) حقوق العباد۔ حقوق العباد میں جو مالی معاملات ہیں یا ان میں مقصود مال ہی ہے، اس میں بالاتفاق قسم ہے اور جو مالی معاملات نہیں ہیں یا مال سے ان کا تعلق نہیں یعنی مال مقصود نہیں ہے، جیسے قصاص، نکاح، رجوع، ایلاء وغیرھا، امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ان میں قسم نہیں ہے، امام احمد کا ایک قول یہی ہے اور امام شافعی اور صاحبین کے نزدیک یہاں بھی قسم ہے، لیکن متاخرین احناف نے فتویٰ صاحبین کے مطابق دیا ہے کہ حدود کے سوا ہر دعویٰ میں مدعی علیہ سے قسم لی جا سکتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4471
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5427
´قسم کھلاتے وقت حاکم کی نصیحت کا بیان۔` ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ دو لڑکیاں طائف میں موزے (خف) بنایا کرتی تھیں، ان میں سے ایک باہر نکلی، تو اس کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا، اس نے بتایا کہ اس کی سہیلی نے اسے زخمی کیا ہے، لیکن دوسری نے انکار کیا، تو میں نے اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا تو انہوں نے جواب لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ قسم تو مدعا علیہ سے لی جائے گی، اگر لوگوں کو ان کے دعوے کے مطابق (فیصلہ) مل جایا کرے تو بعض لوگ دوسرے لوگوں کے مال اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5427]
اردو حاشہ: یہ قطعی بات ہے کہ مدعی سے اس کے دعوے کا ثبوت طلب کیا جائے گا۔ اگر ثبوت‘ یعنی کوئی دستاویز یا گواہ مل جائے تو وہ چیز مدعی کو دے دی جائے گی۔ اگر مدعی دلیل پیش نہ سکے تو پھر مدعی علیہ سے پوچھا جائے گا۔ اگر وہ (مدعی علیہ) مدعی کے دعوے کا منکر ہو تو اس سے قسم لی جائے گی۔ قسم کھا لے تو مدعی کو کچھ نہیں ملے گا۔ اگر قسم نہ کھائے تو پھر مدعی سے قسم لے کر چیز اسے دے دی جائے گی اسے یمین نکول کہتے ہیں۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5427
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2514
2514. حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے کوئی معاملہ دریافت کرنے کے لیے حضرت ابن عباس ؒ کو خط لکھا تو انھوں نے مجھے بایں الفاظ جواب تحریر کیا: ”نبی کریم ﷺ کا یہ فیصلہ ہے کہ قسم اٹھانا مدعی علیہ کے ذمے ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2514]
حدیث حاشیہ: یہ اختلاف خواہ اصل رہن میں ہو یا مقدار شی مرہونہ میں میں مثلاً مرتہن کہے تونے زمین درختوں سمیت گروی رکھی تھی اور راہن کہے میں نے صرف زمین گروی رکھی تھی تو مرتہن ایک زیادہ کامدعی ہوا، اس کو گواہ لانا چاہئے۔ اگر گواہ نہ لائے تو راہن کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ شافعیہ کہتے ہیں رہن میں جب گواہ نہ ہوں تو ہر صورت میں راہن کا قول قسم کے ساتھ قبول کیا جائے گا۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2514
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2514
2514. حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے کوئی معاملہ دریافت کرنے کے لیے حضرت ابن عباس ؒ کو خط لکھا تو انھوں نے مجھے بایں الفاظ جواب تحریر کیا: ”نبی کریم ﷺ کا یہ فیصلہ ہے کہ قسم اٹھانا مدعی علیہ کے ذمے ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2514]
حدیث حاشیہ: راہن، گروی رکھنے والا اور مرتہن جس کے پاس گروی رکھی جائے۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ مدعی اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کرے یا گواہ لائے، اگر مدعی کے پاس ثبوت یا گواہ نہ ہوں تو مدعا علیہ قسم اٹھائے گا کہ مجھ پر جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے۔ عنوان کا مقصد یہ ہے کہ مدعی اور مدعا علیہ کے معاملے میں جو اصول ہے وہی اصول راہن اور مرتہن کے بارے ہو گا۔ ان کے اختلاف کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ یہ دونوں قرض کی مقدار میں اختلاف کریں اور مرہونہ چیز بھی موجود ہو، راہن کہے کہ میں نے ایک سو کے عوض گروی رکھی ہے اور مرتہن کہے کہ میں نے اس سے دو سو روپیہ لینے ہیں اور یہ گروی دو سو روپے کے عوض ہے، تو اس اختلاف کو نمٹانے کے لیے درج بالا طریقہ استعمال کیا جائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2514